مفتی محمد عامر یاسین ملی مالیگاؤں 8446393682
عبداللہ چاچا میری مسجد کے پرانے مصلی ہیں ، گزشتہ روز ایک تقریب ولیمہ میں ملے تو شکوہ کرنے لگے : امام صاحب! اپنی مسجد میں عید کی نماز کیوں نہیں ہوتی؟
میں نے انہیں بتایا کہ عید کی نماز عیدگاہ میں مسنون ہے ۔
کہنے لگے: تم جوان ہو ، عیدگاہ دور ہے، ہم جیسے بوڑھے اور کمزور لوگوں کا خیال رکھا کرو۔
اب میں نے عرض کیا : چاچا ! برا نہ مانو تو ایک بات کہوں ؟
ابھی آپ جس ولیمہ میں آئے ہیں وہ آپ کے گھر سے تین کلو میٹر دور ہے اور عیدگاہ کا فاصلہ ایک کلو میٹر کا ہے!!
اتنا سنتے ہی چاچا آگے بڑھ گئے ۔
_________________________
مسئلہ: جس علاقے میں عیدگاہ/ میدان وغیرہ موجود ہو وہاں بلاعذر عیدگاہ کو چھوڑ کر مسجد یا عمارت میں نمازِ عید ادا کرنے سے سنت کا ثواب حاصل نہیں ہوگا۔
ولو صلی العید في الجامع ولم یتوجه إلی المصلی، فقد ترک السنة". (البحرالرائق: ۲/۲۷۸) فقط واللہ اعلم
_________________________
قارئین! غور کیجئے! مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ملتا ہے ، اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ عیدگاہ میں عید کی نماز ادا کرتے تھے۔ اس لیے عام حالات میں عید کی نماز عیدگاہ میں ہی ادا کرنا چاہیے، یہی مسنون ہے ، البتہ بارش یا کوئی اور شرعی عذر ہو تو پھر مسجد میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے یہاں بوڑھے اور کمزور افراد کا سہارا لے کر ایک ہی محلے کی کئی کئی مساجد میں بیک وقت عیدین بطور خاص عید الاضحی کی نماز ادا کی جاتی ہے اور محض جانور جلد ذبح کرنے کی فکر میں جوان اور صحتمند افراد کی اکثریت اس میں شریک ہوتی ہے، جو پسندیدہ نہیں ہے۔ رہی بات بوڑھے اور ضعیف حضرات کی تو ان کے لئے شہر کے چاروں حصوں کی چند بڑی مساجد میں نماز کا اہتمام کر لیاجائے تو ان کے لئے کافی ہے۔ ائمہ کرام پہلے ہی سے اس سلسلے میں مصلیان کی ذہن سازی کریں تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
*-*-*
1 تبصرے
👌👌👌👌
جواب دیںحذف کریں