از:مفتی محمد عامریاسین ملی
مشہور شعر ہے ؎
خدا کو بھول لوگ فکر روزی میں
خیال رزق ہے رزاق کا خیال نہیں
مذکورہ شعر ہماری معاشرتی صورت حال بیان کرنے کے لیے بہت کافی ہے ،عام طریقے پر یہی ہوتا ہے کہ ہم لوگ حصول رزق کی جدوجہد اور اپنی تجارت اور ملازمت میں اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ ہمیں فرض نمازوں کا بھی خیال نہیں رہتا ،ہمارے شہر میں ہزاروں کی تعداد میں پاورلوم کارخانے ہیں ،جن میں کام کرنے والے مزدور دس سے بارہ گھنٹے مسلسل محنت کرتے ہیں ،اسی طرح مختلف دکانوں میں تجارت اور ملازمت کرنے والے لوگ حصول رزق کے لیے اپنا خون اور پسینہ بہاتے رہتے ہیں ،مگر افسوس !ان میں اکثر افراد رزاق حقیقی سے رزق مانگنے کے لیے نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے ، ان کے پاس کاروبار اور ملازمت کے لیے وقت ہوتا ہے لیکن نماز کے لیے وقت نہیں ہوتا، حالانکہ پانچوں وقت اہتمام کے ساتھ نماز اداکی جائے تو بھی سوا گھنٹے سے زیادہ وقت صرف نہیں ہوتا،یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں لوگ ہوٹلوں پر وقت گزاری کرلیتے ہیں یا موبائل اور دوستوں کی مجلس میں مشغول ہوجاتے ہیں لیکن پڑوس میں واقع مسجد میں نماز کے لیے حاضر نہیں ہوتے ۔یہی حال دیگر کاروبار سے منسلک افرادکا بھی ہے ،تجارت ہویا ملازمت، بہت سارے انسانوں کے لیے یہ چیز عبادات کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جاتی ہے ،لیکن کچھ ایسے بندے بھی ہیں جن کا حال یہ ہوتا ہے کہ ؎
آواز اذن سن لے تو ہشیار ہومسلم
مسجد کی طرف مائل رفتار ہومسلم
یہ ایسے لوگ ہیں جو اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ روپیہ پیسہ کمانا ہماری ضرورت ہے لیکن اللہ کی عبادت ہماری زندگی کا مقصد ہے، چنانچہ وہ مؤذن کی صدائے اللہ اکبر کانوں میں پڑتے ہی اپنا کام روک دیتے ہیں اور اس احساس کے ساتھ مسجد کی جانب قدم بڑھا دیتے ہیں کہ رزق ملازمت اورتجارت کی جگہوں سے نہیں بلکہ رزاق حقیقی کی بارگاہ سے ملتا ہے۔
میں گورہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تمہاری یاد سے غافل نہیں رہا
بعض تاجر ایسے بھی گزرے ہیں جواذان سنتے ہی دکان بند کرنے لگتے تھے، چاہے گاہکوں کی بھیڑ کیوں نہ لگی ہو،جب ان سے کہاجاتا تھا کہ اس طرح گاہکوں کو چھوڑ کر اور دکان بند کرکے مسجد جانے سے کاروبار میں نقصان ہوسکتا ہے تو وہ پورے یقین کے ساتھ کہتے تے :الرزق علی اللہ(روزی دینے والااللہ ہے)
ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ ان کی تجارت ان کو ذکر اللہ، نماز اور زکوۃ کی ادائیگی سے نہیں۔(سورہ نور)
ہمارے اپنے شہر میں ایک دکان کے پاس سے گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے اور دکاندار مسجد کے لیے روانہ ہوچکا ہے ، جانے سے قبل اس نے دکان کے دروازے پر ایک تختی لگادی ہے جس پر گاہکوں کے لیے یہ خوبصورت جملہ لکھا ہوا ہے :نماز کا وقت ہوچکا ہے ،ہم مسجد پہنچ چکے ہیں، بہتر ہوگا کہ آپ بھی تشریف لے آئیں ۔
ہماری مسجد (یحیی زبیر)کے پڑوس میں الحاج ضیاء حکیم صاحب کاکارخانہ ہے ،چند دنوں قبل ان کے فرزند حافظ مصطفی حکیم صاحب نے کارخانے کے تمام مزدوروں کو جمع کر کے کہا کہ معاشی مندی اور رزق میں بے برکتی کی ایک بڑی وجہ فرض نمازوں میں کوتاہی ہے ،اس لیے تمام مزدور بھائیوں سے گزارش ہے کہ اذان ہوتے ہی کارخانہ بند کرکےاز خود مسجد پہنچ جایا کریں ،بصورت دیگر نماز کے وقت میں خود کارخانہ بند کردیا کروں گا،الحمدللہ تمام مزدوروں نے ان کی اس تجویز کو قبول کیا اور اب یہ معمول بن چکا ہے کہ اذان ہوتے ہی وہ کارخانہ بند ہوجاتا ہے اور سارے مزدور حضرات مسجد روانہ ہوجاتے ہیں ۔عزیزم حافظ مصطفی حکیم نے راقم کو بتایا کہ جب انہوں نے مزدور بھائیوں سے نمازوں کے اہتمام کی گزارش کی تو ان لوگوں نے جواباً کہا کہ ’’آپ نے نماز کی دعوت دینے میں بہت دیر کردی ‘‘اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محنت کش مزدور بھائیوں میں نیکی کی راہ پر چلنے خصوصاً نمازوں کے اہتمام کا جذبہ موجود ہیں ،اگر ہمارے کارخانے دار اور بنکر حضرات اپنے اپنے کارخانے کے مزدوروں کو جمع کر کے اسی طرح نمازوں کی ترغیب اور دعوت دیں تو کوئی شبہ نہیں کہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جائے اور اسلام کے اس سب سے اہم فریضے کی ادائیگی کی برکت اس طور پر ظاہر ہو کہ معاش سمیت ہمارے دیگر مسائل بھی اللہ رب العزت حل کردیں ۔وماذالک علی اللہ بعزیز!
قرآن کریم میں ارشاد خدا وندی ہے:اے نبی! اپنے گھروالوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کی پابندی کرو،ہم آپ سے روزی کا مطالبہ نہیں کرتے ،روزی تو ہم آپ کو دیں گے ۔(سورہ طہ)اس آیت سے معلوم ہوا کہ نمازوں کے اہتمام سے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے :اے آدم کے بیٹے ! میری عبادت کے لئے فارغ ہوجا،میں تیرا سینہ استغنا سے بھر دوں گا اور تیرا فقر دور کردوں گا، اور اگر تونے ایسا نہ کیاتومیں تیرے سینے کو اشغال سے بھردوں گااورتیرا فقر دور نہیں کروں گا’’۔ ایک مسجد کے دروازے پر یہ فکر انگیز جملہ لکھا ہوا تھا کہ خدا کے پاس آپ کو دینے کے لیے سب کچھ ہے ، کیا آپ کے پاس خدا سے مانگنے کے لیے وقت ہے؟ حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے فقر وفاقہ کی شکایت تو آپ نے فرمایا: تم ہمیشہ باضورہنے کی کوشش کرو،اللہ تمہارے رزق کو وسیع کردے گا۔
قارئین! نماز کی برکت سے رزق میں کیسی برکت ظاہر ہوتی ہے ، یہ جاننے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ہائی وے پر موجود ہمارے گجراتی بھائیوں کو دیکھ لیجئے، وہ اپنی ہوٹلوں میں عبادت گاہ ضرور قائم کرتے ہیں جہاں گاہکوں کے علاوہ وہ خود بھی نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو جس معاشی خوشحالی سے نوازا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔ اسلام میں نماز کی کتنی اہمیت ہے، یہ کس قدر عظیم الشان فریضہ ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے کتنے فوائد ظاہر ہوتے ہیں ، نیز اس میں کوتاہی پر کتنی سخت وعیدیں قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں ، تقریبا ہر مسلمان ان باتوں سے واقف ہے ، اس لیے اپنے تمام ہی مسلمان بھائی اور بہنوں خصوصاً کارخانوں اوردکانوں میں کام کرنے والے مزدور حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ نمازوں کا خوب اہتمام کریں ، حافظ مصطفی حکیم صاحب کا عمل قابل تعریف بھی اور لائق تقلید بھی ، مجھے امید ہے کہ انہوں نے جو عملی پہل کی ہے ،اس سے ہم سب ترغیب حاصل کریں گے ،ان شاء اللہ
4 تبصرے
ماشاءاللہ،! اللہ ہر سیٹھ صاحب کو توفیق دے کہ وہ اپنے کارخانے میں یہ نظم کرے
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب زور قلم اور زیادہ۔
جزاک اللہ خیرا
حذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںمجھ کو بہت اچھی طرح یاد ہے کہ گولڈن نگر میں رحمانی ورکشاپ کی جگہ ہمارا کارخانہ تھا۔ اذان شروع ہوتے ہی پاورلوم کی گھڑگھڑاہٹ بند ہوجاتی تھی اور مزدور نماز ادا کرنے کیلئے زکریا مسجد میں چلے جاتے تھے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ تمام کارخانے دار کو ایسا نظم کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین یا ربّ العالمین