(امام و خطیب مسجد یحییٰ زبیر 8446393682)
علماء وحفاظ کرام خصوصاً مساجد کے ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہوں کا معاملہ گاہے بگاہے زیر بحث آتا رہتا ہے ،جب بھی اس مسئلے پر گفتگو ہوتی ہے، مجلس میں موجود اکثر افراد ائمہ مساجد اور مؤذنین کی تنخواہوں کو ضرورت کے لحاظ سے ناکافی قرار دیتےہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ائمہ ومؤذنین کی تنخواہیں بھی مہنگائی اور ضرورت کے لحاظ سے معقول اور مناسب ہونی چاہیے،اس کے بعد تنخواہوں میں جان بوجھ کر اضافہ نہ کرنے والے ٹرسٹیان مساجد اور ذمہ داران کو جم کر کوسا جاتا ہے اوریہ جملہ بھی ضرور کہا جاتا ہے کہ ’’آخر ٹرسٹیان ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہ میں اضافہ کیوں نہیں کرتے، کیا انہیں اپنی جیب سے روپیہ دینا ہوتا ہے؟‘‘اس کے بعد یہ موضوع مکمل ہوجاتا ہے اور بات کسی دوسرے موضوع پرچلی جاتی ہے ۔یعنی نشستن ،گفتن ،برخاستن کے مصداق اس موضوع پر عام طریقے پر صرف زبانی جمع خرچ ہوتا ہے ،گفتگو کرنے والے اکثر افرادائمہ ومؤذنین تنخواہوں کی کمی پر افسوس ضرور کرتے ہیں لیکن کسی بھی عملی اقدام سے قاصر رہتے ہیں ،مصلیان مساجد بھی عام طریقے پرسارا الزام ٹرسٹیان کے سر ڈال کر اپنے آپ کو بری کرلیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہم بھی ائمہ اور مؤذنین کے اصل خیر خواہ ہیں ،ایسے حضرات کو دیکھ کر شاعر کا یہ شعر یاد آتا ہے
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
ہمیں ایسے حضرات کے خلوص پراور ائمہ و مؤذنین سے ان کی محبت وعقیدت کے سلسلے میں کوئی شبہ نہیں، البتہ تنخواہوں میں اضافے کو لے کر ان سے کچھ باتیں عرض کرنی ہیں:
(۱)ائمہ مساجد اور مؤذنین کی قلیل تنخواہوں کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے ،اور اس سلسلے میں کی جانے والی ہمدردانہ گفتگو بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے ،برسوں سے اس طرح کی گفتگو کا سلسلہ جاری ہے اور تنخواہوں کا معاملہ بھی جوں کا توں باقی ہے،پتہ چلا کہ ہماری محض زبانی ہمدردی اس مسئلے کے حل کے لیے ناکافی ہے ۔
(۲)ہم اگرواقعتاً اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں چند عملی اقدامات کرنے ہوں گے :
(الف)ہم مساجد کے ٹرسٹیان سے بالمشافہ ملاقات کر کے تنخواہوں میں کمی کی وجہ معلوم کریں۔ممکن ہے کہ مسجد کی آمدنی ہی اتنی کم ہو جس کی وجہ سے تنخواہ میں اضافہ مشکل ہے ،لہذا ہم مسجد کی آمدنی میں اضافے کے سلسلے میں لائحہ عمل تیار کریں۔
(ب)اگر آمدنی تو بھر پور ہو لیکن ٹرسٹیان کے دلوں میں ہی کشادگی نہ ہو تو ان کو اچھے انداز میں تنخواہوں میں اضافے کے لیے آمادہ کریں،دیگر ایسی مساجد کی مثال پیش کریں جہاں معقول تنخواہیں دی جاتی ہیں ،مثلاً مسجد آسمہ(نزد اسٹار ہوٹل) جہاں ساڑھے تین ہزار روپیہ ہفتہ وار تنخواہ دی جاتی ہے ،اسی طرح مسجد انوار مدینہ ،مسجد کوہ نور ،مسجد رابعہ عبد الغفور ،مسجد حاجی عبد الرؤف ، مسجد محمد صلی اللہ علیہ وسلم،مسجد اسحاق ابن یاسین وغیرہ ،ان مساجد میں بھی ماشاء اللہ تنخواہیں تقریباً تین ہزار روپیہ یا اس سے زائد ہیں۔
(ج)اگر ٹرسٹیان کسی طرح آمادہ نہ ہو ں (جیسا کہ عام صورت حال یہی ہے کہ روپیہ ہوتے ہوئے بھی ٹرسٹیان اضافہ کرنا ہی نہیں چاہتے )تو چند حضرات مل کر اپنے طور پر ماہانہ یا سالانہ کچھ رقم جمع کرلیا کریں اور خاموشی کے ساتھ اپنے ائمہ اور مؤذنین کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کردیا کریں ۔یہ بھی ائمہ مؤذنین کی خدمت کا ایک آسان طریقہ ہے اور باعث اجرو ثواب بھی !
(۳)یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کی ذمہ داری صرف ٹرسٹیان مساجد کی نہیں ہے بلکہ مسجد کا ہر مصلی اس سلسلے میں ذمہ دار ہے ،دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض حضرات ہفتے کی دس بیس روپے کی رسید بھی نہیں بنواتے،مسجدکی دوکان ،مکان اور سامان کا وقت پر مناسب کرایہ ادا نہیں کرتے لیکن ٹرسٹیان پر دل کھول تنقید کرتے ہیں ،ایسے حضرات سے عرض ہے
شکوہ ظلمت شب سے تو کئی بہتر تھا
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلاتے جاتے
ظاہر سی بات ہے کہ اگر مصلیان اپنی مسجد کا بھر تعائون نہ کریں تو ٹرسٹیان کے لیے مساجد کے تمام اخراجات کو پورا کرنا کیسے ممکن ہوسکے گا ،صورت یہ ہے کہ دس ،بیس روپے کی رسید میں پانچ ،دس سال ہونے کے بعد بھی کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا، اس لیے مصلیان کو چاہیے کہ ہر سال اپنی ہفتہ وار یا ماہانہ رسید میں اضافہ بھی کرتے رہیں۔
ائمہ وموذنین کی تنخواہوں کے ساتھ ساتھ ان کے سالانہ مشاہرے یعنی نذرانے کا معاملہ بھی قابل توجہ ہے ،بہت ساری مساجد کے ذمہ داران فتوے کا غلط سہارا لے کر نذرانہ دینے سے انکار کردیتے ہیں ،تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان ہی ذمہ داران کو تنخواہوں میں معقول اضافے کا فتوی بتایاجائے تو قبول نہیں کرتے ،ایسےٹرسٹیان مساجد سے اطلاعاً عرض ہے کہ ہمارے شہر عزیز کے سب سے بڑے اور تجربہ کار مفتی حضرت مولانا مفتی سراج احمد ملی صاحب نے اپنے فتوی میںائمہ او ر مؤذنین نیز حفاظ کرام کے نذرانے کو جائز قرار دیا ہے اور تفصیل کے ساتھ دیگر باتوں اوراعتراضات کی حقیقت کوواضح کیاہے ،لہذا حضرت مفتی صاحب کے فتوے کو ایک مرتبہ بغور پڑھ لیا جائے ۔
ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر ٹرسٹیان مساجد کے ساتھ ساتھ مصلیان بھی اس سلسلے میں مخلصانہ کوشش کریں تو کافی بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں جس کی ایک تازہ مثال مسجد عکرمہ ہے ،اس مسجد کے ٹرسٹیان اور مصلیان نے امام مسجد مفتی امتیازاحمد فلاحی صاحب کو امامت کی خدمت کرتے ہوئے دس سال کا عرصہ پورا ہونے پر اپنی جانب سے عمرہ کا تحفہ پیش کیا ہے۔اس قبل مسجد اسحاق ابن یاسین کے ذمہ داران اور مصلیان نے بھی مسجد کے امام حافظ عبد الرحمن صاحب کو اپنی جانب سے سفر عمرہ پر روانہ فرمایا تھا۔بلاشبہ یہ عمل اپنے آپ میں لائق تحسین ہے اور دیگر مساجد کےٹرسٹیان اور مصلیان کے لیے قابل تقلید بھی !
٭٭ ٭
0 تبصرے