Ticker

6/recent/ticker-posts

میں بھی حاضر تھا وہاں

سیرو تفریح اورعلمی مذاکرے کی ایک مفید مجلس

تحریر:مفتی محمد عامریاسین ملی

   شب برأت کے موقع پر شہر مالیگاؤں میں عمومی تعطیل رہتی ہے،عام طریقے پر لوگ ۱۵؍شعبان کی رات جاگ کر عبادت میں بسر کرتے ہیں اور دن میں آرام اور تفریح کرتے ہیں ،تہوار کی چھٹیوں میں اکثر لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر جمع ہوجاتے ہیں ،دوستوں کے ہمراہ جب مجلس جمتی ہے ،تو عام طریقے پر ہنسی مذاق ،گپ شپ ،لہو ولعب اور اس سے آگے بڑھ کر لغو اور گناہ کے کاموں مثلاً غیبت اور استہزا(کسی کا مذاق اڑانا)کا ماحول ہوتا ہے ،بات صرف باہمی ملاقات اور سنجیدہ مذاق تک محدود ہو تو شرعاً کوئی حرج نہیں ،لیکن اس کے علاوہ جن نامناسب باتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے ،ان کی وجہ سے ایسی مجلسیں گناہ کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم جہاں بھی اکٹھے ہوں ، ہماری کوئی بھی مجلس ہمارے لیے دنیوی اور اخروی لحاظ سے خسارے کا باعث نہ ہو ، بلکہ علمی و فکری لحاظ سے مفید ثابت ہو ۔ ہم جب بھی اکٹھے ہوں ایک دوسرے کے لیے راحت اور خوشی کا ذریعہ ثابت ہوں،ہمارا ملنا جلنا اور اٹھنا بیٹھنا اللہ کی رضا کے لیے ہو،ہماری سیرو تفریح شرعی حدود کے اندر ہو،اور ہماری مجلس اور سیر و تفریح کے پروگرام میں کوئی بھی عمل ایسا نہ ہو جو ہمارے لیے دنیا وآخرت میں نقصان اور پشیمانی کا باعث ہو۔
  ڈیڑھ ماہ قبل شب برأت کے موقع پر جماعت اسلامی (مالیگاؤں)کے احباب نے پندرہ شعبان کی یک روزہ تعطیل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موتی اسکول (نزد فارمیسی کالج) میں باہمی ملاقات کا ایک پروگرام منعقد کیا ،جس میں تیس سے زائد افراد جمع ہوئے ،تمام ہی افراد نے باہم ملاقات کی، ایک ساتھ بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھایا اور اس کے بعد ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی علمی مذاکرے کی مجلس رکھی ،جس میں راقم کو مدعو کیا اور گزارش کی کہ ’’اسلام کے نظام میراث ‘‘کے موضوع پر آپ خطاب کریں ،البتہ یہ خطاب عام خطاب اور بیان کی طرح نہیں ہوگا ،بلکہ دوران خطاب سامعین کے دلوں میں اگر کوئی سوال یا اشکال پیدا ہوگا تو وہ اسی وقت آپ کے سامنے اپنا سوال اور اشکال پیش کریں گے اور آپ اس کاجواب عنایت فرمائیں گے ۔ راقم کو ان حضرات کی یہ پیشکش دینی اور علمی لحاظ سے مناسب اور مفید محسوس ہوئی ،چنانچہ میں نے ان کی دعوت قبول کرلی اور رفیق محترم مفتی محمد ناظم ملی صاحب کے ہمراہ موتی اسکول میں حاضر ہوگیا ۔ماشاء اللہ مجلس بڑے ہی اہتمام کے ساتھ منعقد ہوئی اور قریب ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی ،تلاوت اور نعت کے بعد راقم نے میراث کے موضوع پر تمہیدی گفتگو کی، اس کے بعد سامعین کے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا ،جو اخیر تک جاری رہا ۔الحمدللہ راقم نے تمام ہی سوالات کے جوابات دیے اور میراث سے متعلق بہت ساری بنیادی اور اہم باتیں نیز اعتراضات اور ان کے جوابات پیش کیے،جن کو سن کر تمام ہی سامعین نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ،ایک اندازے کے مطابق سامعین نے کم وبیش پچاس سوالات کیے اور ان کے جوابات حاصل کیے ۔
    یہ میرے لیے بھی پہلا تجربہ تھا ،لیکن مجھے یہ بات محسوس ہوئی کہ ہمارے خطباء اور مقررین کو اس انداز میں بھی خطاب کرنا چاہیے جس میں سامعین کو سوالات پوچھنے اور اپنے اشکالات پیش کرنے کا موقع ملے ،عام طریقے پر مقرر اپنے طور پر ہی عنوان بھی طے کرتا ہے اور عنوان سے متعلق باتیں بھی اپنی مرضی سے پیش کرتا ہے ،اگر سامعین کو عنوان طے کرنے کا اختیار دے دیا جائے اور عنوان سے متعلق سوالات کرنے کی انہیں اجازت دی جائے تو اس کے ذریعے ان کے بہت سارے اشکالات اور اعتراضات دور ہوسکتے ہیں اور ان کی معلومات میں قابل قدر اضافہ بھی ہوسکتا ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تقریر وخطاب کی عام مجالس کے برعکس سوال وجواب کی مجلس انتہائی دلچسپ ہوتی ہے اور تمام سامعین پیش کیے جانے سوالات اور ان کے جوابات انتہائی توجہ اور شوق کے ساتھ سنتے ہیں ۔
عیدالفطر کے موقع پر ہمارے شہر میں تقریباً ایک ہفتے تک چھٹیوں کا ماحول رہتا ہے اور لوگ یہاں وہاں مجلیس لگا کر وقت گزارتے ہیں ،اگر ہم لوگ اپنی مجلسوں میں کسی صاحب علم کو مدعو کرلیں اور گھنٹہ دو گھنٹہ ان سے علمی استفادہ کریں تو نہ صرف یہ کہ ان کی دینی معلومات میں قابل قدر اضافہ ہوگا بلکہ اسلامی احکام و قوانین سے متعلق بہت سارے شکوک وشبہات بھی دور ہوجائیں گے اور ہماری مجلس اور سیر و تفریح کا پروگرام بھی انتہائی بامقصد اور مفید ثابت ہوگا ، فی الحال عہد الفطر کی تعطیلات جاری ہیں ، امید ہے کہ ایسی تعطیلات میں پیش کی گئی ہماری گزارشات پر غور اور عمل کیا جائے گا۔ واللہ الموفق
*-*-*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے