تحریر : مفتی محمد عامر یاسین ملی
(امام و خطیب مسجد یحییٰ زبیر)
تاب پیدا کر سمندر کی طرح
وسعت گہرا ئیاں خاموش ہیں
کہہ رہاتھاشوردریاسےسمندرکاسکوت
جس کاجتناظرف ہےاتنا ہی وہ خاموش ہے
قارئین ! موجوہ دور کو سوشل میڈیا کا دور کہا جاتا ہے ،جس میں ہر ایک شخص کو اپنی بات (خواہ وہ صحیح ہو یا غلط ،ضروری ہویا غیر ضروری) معاشرے میں پھیلانے کے لیے ایک کلک کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ،اکثر لوگ جو عقل سے زیادہ نقل پر اعتماد کرتے ہیں، وہ بلاتاخیر کسی بھی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھاتےچلے جاتے ہیں ،اب ا گر بات اچھی اور مفید ہوتو اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے ،اور اگر بری اور جھوٹی ہوتو لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کے متعدد نقصانات سامنے آتے ہیں ،اس لیے کسی بھی بات کو لکھنے یا پھیلانے سے پہلے اچھی طرح غور کرلینا چاہیے کہ
(الف) کیا یہ بات اچھی اور سچی ہے؟
(ب)کیا یہ بات اس وقت کہنا مناسب ہے؟
(ج)کیا یہ بات کہنا مفید اور ضروری ہے ؟
(د)اس بات کے کہنے اور لکھنے سے میرا کیا مقصد ہے ؟خدا کی رضا ،معاشرہ کی اصلاح ،یا شہرت کا حصول اور فتنہ وفساد پھیلانا !
دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض لوگ ہر بات کو لکھنا اور پھیلانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ،خواہ وہ بات غیر ضروری اور غیر حقیقی یانامناسب اور جھوٹی کیوں نہ ہو اور اپنے گمان میں اس کو مفید سمجھ کر مطمئن رہتے ہیں ،بعض ایسے عنوانات جو انتہائی حساس،نازک اور تحقیق طلب ہوتے ہیں اور اہل علم ودانش بھی اس پرفوراً لب کشائی کے بجائے غور وخوض کررہے ہوتےہیں ،بعض لوگ بلا تحقیق اوربغیر سوچے سمجھے ان عنوانات پر اچھل کودشروع کردیتے ہیں اور خیال یہ کرتے ہیں کہ ہم تو معاشرہ کی اصلاح کررہے ہیں۔اسی طرح بعض لوگ مسائل کی نشاندہی اور ان پر تنقید تو خوب شوق سے کرتے ہیں لیکن ان مسائل کا کوئی مناسب حل پیش نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے عام لوگ ذہنی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں ،شاعرنے ایسے ہی لوگوں سے کہا ہے
عریانیوں پہ شوق سے تنقید۔ کیجیے
چادربھی کوئی دیجیے درس حیا کے ساتھ
یہ صورت حال کسی بھی سماج کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، جب زبان اور قلم کا بے جا استعمال ہونے لگے اور لوگ صحیح اور غلط کی تمیز کیےبغیر ہر بات کو پھیلانے لگ جائیں تو پھر معاشرے میں ذہنی اور فکری بگاڑ پیدا ہوتا ہے ،پھر کب کسی بھی فرد ،خاندان اورادارے کی عزت پامال کردی جائے اور کب کسی بھی مفید دینی ودنیاوی کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے ،نہیں کہا جاسکتا ،اس لیے ہرشخص کو سوچ سمجھ کر اپنا قلم اور قدم اٹھانا چاہیے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی چیز دنیا میں شرمندگی و رسوائی اور آخرت میں پکڑ کا سبب بن جائے !شاعر نے کیسی اچھی نصیحت کی ہے ؎
جب کبھی بولنا وقت پر بولنا
مدتوں سوچنا مختصر بولنا
ڈال دےگاہلاکت میں اک دن تجھے
اے پرندے ترا شاخ پر بولنا
قارئین بطور خاص سوشل میڈیا صارفین سے بھی درخواست ہے کہ کسی بھی بات کو پڑھنے اور نقل کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کرلیا کریں تا کہ بعد میں ندامت وپشیمانی کا سامنا نہ ہو ،نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تصدیق کیے بغیر)دوسروں سے نقل کردے۔(مسلم)
یاد رکھئے کہ وہاٹس ایپ ،فیس بک ،یوٹیوب اور دیگر سوشل ذرائع پر ہر طرح کے لوگ (مسلم ،کافر ،دین دار،بے دین ،گمراہ ،تعلیم یافتہ اور جاہل )موجود ہیں ،جو اپنا چینل ،بلاگ ،ویب سائٹ اور گروپ بنا کر اپنی اپنی بات شیئر کرتے ہیں ،بھولے بھالے مسلمان بغیر تحقیق کیے کسی بھی چینل یا ویب سائٹ کو اوپن کر کےپیش کی گئی تحریر پڑھنے لگتے ہیں یا آڈیو اور ویڈیو بیان سننے اور دیکھنےلگتے ہیں اور پھر شکوک وشبہات اور الجھن میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،یا درکھئے آپ کے سامنے آنے والی ہر آڈیو سننےاور دیکھنے کے لائق اور ہر تحریر پڑھنے کے قابل ہو ،ایسا ضروری نہیں ۔معتبر اور مستند اہل علم کی کتابیں پڑھیں اور ان کے بیانات سنیں ۔زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے علاقے میں موجود علماء کرام اور مفتیان عظام کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے رہنمائی حاصل کریں ،حصول علم کا یہی محفوظ اور آسان راستہ ہے ۔
*-*-*
4 تبصرے
مفتی صاحب بہت شاندار اور مفید باتیں ہیں ، اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں خوب برکت دے ۔
جواب دیںحذف کریںشاندار... وقت اور حالات کے مطابق ان باتوں پر توجہ دلانا اشد ضروری تھا..
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ 🌹 حیاک اللہ حیاۃ طیبۃ 🤲
جواب دیںحذف کریںاستاد محترم ! آپ نے واقعی بہت لائق اصلاح بات لکھی ہے ۔۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین ۔۔۔
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں