اردو کتاب میلہ جاری ہے ، آو ہم اس سے استفادہ کریں!
مفتی محمد عامریاسین ملی
کتاب جیسا مخلص ساتھی کوئی نہیں موجودہ زمانے میں جب کہ آئے دن نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں ،اور زندگی کی آسائشوں اور سہولیات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،،وہیں نئی نئی ایجادات اور سائنسی ترقیات کے نتیجے میں انسان بہت ساری اخلاقی قدروں اور خوبیوں سے محروم ہوتا جارہا ہے ،مثال کے طور پر جب سے موبائل ایجاد ہوا ہے اور سوشل میڈیاکے پلیٹ فارم پرتک ہر خاص وعام کی رسائی ہوئی ہے ،اس کے ذریعے جہاں رابطے آسان ہوئے ہیں ،وہیں ساری دنیا کی خبر رکھنے والاانسان اپنے اہل خانہ ،رشتے داروں یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوچکا ہے ،نوجوان نسل تو سوشل میڈیا اور موبائل کے سحر میں کچھ اس طرح گرفتار ہوئی ہے ،کہ اسے نہ اپنے حال کی خبر ہے اور نہ اپنے مستقبل کی فکر ،یہ چیز پورے سماج اور معاشرے کے لیے انتہائی تشویش ناک اور فکر مندی کا باعث ہے ،وہ طلبہ جن کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم ہوا کرتی تھی اب ان ہی طلبہ کے ہاتھوں میں بڑے بڑے اینڈرائڈموبائل اور لیپ ٹاپ نظر آتے ہیں ،اب کتابیں الماریوں میں دھول کھارہی ہیں ،اور کتب خانے اپنے قارئین کے انتظار میں کھلے رہتے ہیں ،حضرت عمر عبد العزیز کا مشہور مقولہ ہے کہ قبر جیسا واعظ ،کتاب جیسا مخلص اور تنہائی جیسا بے ضرر ساتھی کوئی نہیں ہے ،لیکن موبائل آجانے کے بعد عوام ہی کیا خواص اور اہل علم نے بھی کتابوں سے اپنا رشتہ کمزور اور موبائل سے اپنی دوستی مضبوط کرلی ہے ،کتاب انسان کی بہترین رفیق اور مخلص دوست ہے ،کتابوں کے ذریعے انسان کے علم میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے ،کتابوں کا مطالعہ انسان کو باشعور بناتا ہے ،کتب بینی کے ذریعے قاری ماضی سے آگہی حاصل کرتا ہے ،حال میں جینے کا سلیقہ سیکھتا ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے ،وہ لوگ بڑے محروم القسمت ہیں جن کے پاس کتاب تو ہوتی ہے لیکن کتاب کھولنے اور اس کی ورق گردانی کا وقت نہیں ہوتا ،گزشتہ دو تین دہائیوں میں دنیا میں جو سائنسی انقلاب برپا ہوااس کے نتیجے میں جہاں دنیا آگے بڑھی وہیں علم ،شعور اور اپنے ماضی سے واقفیت کے سلسلے میں بہت پیچھے رہ گئی اور اس کی بنیادی وجہ کتابوں سےدوری ہے ،یہ بات مسلم ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کا رشتہ کتابوں سے مضبوط ہوتا ہے ،قوم مسلم کی تنزلی اور ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس قوم میں اپنے اسلاف کی لکھی گئی بیش قیمت اور رہنما کتابوں پڑھنا ترک کردیا ،اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے قوم کے فکر مند افراد کسی نہ کسی درجے میں کوشش اور جدوجہد کرتے رہتے ہیں ،ان ہی کوششوں میں ایک اہم اور قابل قدر کوشش اردو کتابوں کی نشرواشاعت اور انہیں آسان سے آسان تر راستے قارئین تک پہنچانے کے لیے ۔
شہر مالیگاؤں تعلیم یافتہ اور اردو والوں کا شہر کہلاتاہے ،یہاں کی ذرخیز سرزمین نے ایک سے بڑھ کر ایک عالم وفاضل اور شاعر وادیب پیدا کیے ،دیگر شہروں کی بنسبت آج بھی یہاں اردو اخبارات ورسائل اور کتابوں کے پڑھنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور آج بھی بڑی تعداد میں روز انہ اردو اخبارات ،رسائل اور کتابیں خریدی اور پڑھی جاتی ہیں ،یہاں انجمن محبان کتب کے عنوان سے ایک نوجوانوں کا گروپ بھی سر گرم عمل ہے ،جو گزشتہ کئی برسوں سے اپنی بساط بھر کوشش کے ذریعے اردو کتاب میلے کا انعقاد کررہاہے ،امسال انجمن محبان کتب کی جانب سے شہر مالیگائوں میں سات روزہ اردو کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا ہے ،جس کا آغاز ہوچکا ہے اور اب یہ کتاب میلہ ہفتہ بھر جاری رہے گا،جس میں ادارہ صوت الاسلام اور سٹی کالج کے زیر انصرام بہت سارے علمی ،ادبی اور ثقافتی پروگرام بھی رکھے جائیں گے ،مسائل کے حل کے لیے محض شکوہ اور شکایت کرنے کے بجائے اپنی بساط بھر کوشش کرنا اور تاریکیوں کو بھگانے کے لیے اپنا اپنا چراغ جلادینا یہ مسائل کے حل کے سلسلے میں مخلص ہونے کی علامت ہے ،شاعر نے کہا ہے ؎
شکوہ ٔ ظلمت شب سے تو کئی بہتر تھا
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلاتے جاتے
میں سمجھتا ہوں کہ انجمن محبان اردو کتب نے اپنے حصے کا دیا جلادیا ہے اور اب ہم سب بطور خاص اہل علم حضرات اور اسکولوںاور مدارس کے طلبہ اور طالبات کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس اردو کتاب میلے سے بھرپور استفادہ کریں ،اچھی اچھی کتابیں خریدیں اور ان کا مطالعہ کریں ،امید ہے کہ اس اردو کتاب میلے کے ذریعے اردو زبان کومزید تقویت حاصل ہوگی ،اور مفید کتابوں کو خرید کر ان کا مطالعہ کرنے کے نتیجے میں ہماری نئی نسل کے علم وشعور میں قابل قدر اضافہ ہوگا ۔ شاعرنے کہا ہے ؎
عین ممکن ہے کہ سوئی ہوئی غیرت جاگے
تم کتابیں تو پڑھو جاگتے کرداروں کی
*-*-*
1 تبصرے
ماشاءاللہ 💐🌹
جواب دیںحذف کریںاللہ ہم سب کو کتاب کی رفاقت نصیب کرے آمین