Ticker

6/recent/ticker-posts

آپ عمرہ کیسے کریں ؟

عمرہ کی ادائیگی کا مسنون طریقہ

از:مفتی محمد عامریاسین ملی

(نوٹ : قارئین ! مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سفر نامہ حرمین کی ایک قسط میں عمرہ کا مکمل مسنون طریقہ تحریر کردیا جائے ، تاکہ آپ جب اس مقدس سفر پر جائیں تو عبادت عمرہ کی مسنون طریقہ پر ادائیگی آپ کے لیے آسان ہو ۔ یہ قسط مزید تفصیل کے ساتھ ہماری مرتب کردہ کتاب’’آپ عمرہ کیسے کریں ؟‘‘ میں موجود ہے ، ساتھ ہی ساتھ سفر عمرہ کی تیاری کا طریقہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کے آداب بھی درج ہیں،واضح ہوکہ یہ کتاب معلم الحجاج مفتی محمد اسماعیل قاسمی صاحب کے عمر ہ کے تربیتی بیانات کی تحریری شکل ہے، عازمین اس کتاب کو حاصل کرکے اس سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں، کتاب شہر مالیگاؤں کے بکڈپوز پر دستیاب ہے۔)
 
عمرہ کا آغاز اور طواف کا طریقہ 
کعبہ پر پہلی نگاہ پڑنے کے وقت جو دعا کی جاتی ہے اس سے فارغ ہونے کے بعد ہمیں عمرہ کی ابتدا کرنی ہے اور سب سے پہلے بیت اللہ کا طواف کرنا ہے، طواف شروع کرنے سے پہلے ہمیں تین کام کرنے ہیں: پہلا یہ کہ احرام باندھنے کے بعد سے لے کر ہم نے تلبیہ پڑھنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اب وہ سلسلہ رک جائے گا۔ دوسرا کام یہ کہ مرد حضرات اضطباع کریں گے ،اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ طواف میں چادر کو اس طرح لپیٹنا کہ چادر دائیں ہاتھ کے بغل سے نکلتے ہوئے بائیں کاندھے پر رہے اور دایاں کندھا کھلا رہے۔ تیسرا کام یہ کہ حجر اسود کے سامنے اس طرح کھڑے ہوجائیں کہ آپ کا دایا حجر اسود کے بائیں جانب پڑے،یہاں اس طرح طواف کی نیت کریں گے :اے اللہ !میں تیری خوشنودی کے لئے عمرہ کا طواف کرتا ہوں/کرتی ہوں، تو اسے میرے لئے آسان فرما اور قبول فرما! 
اب دائیں جانب تھوڑا آگے بڑھیں تا کہ حجر اسود آپ چہرے اور سینے کے بالکل مقابل آجائے،اور نماز کی طرح کان تک ہاتھ اٹھاکر بِسْمِ اللہ اللہ اکبرکہیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں، حدیث شریف میں ہے کہ طواف نماز کے مانند ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ہم نماز میں گفتگو نہیں کر سکتے جبکہ طواف میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس کے بعدخود تکلیف اٹھائے اور دوسروں کو تکلیف پہچائے بغیر حجر اسود کا بوسہ لینا اور بوسہ نہ لےسکیںتو ہاتھ سے چھونا بہتر ہے،لیکن چونکہ آج کل حجر اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے ،اس لیے احرام کی حالت میں حجر اسود کو بوسہ نہ دیں اور نہ ہاتھ سے چھوئیں ،بلکہ دونوں ہاتھوں سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرلیں اور بِسْمِ اللہ اللہ اکبرکہہ کر اپنے ہاتھوں کو اس طرح چومیں کہ چومنے کی آواز پیدا نہ ہو ۔اس عمل کو اشارہ کہتے ہیں جو حجر اسود کو بوسہ لینے کا بدل ہے، اس لئے کہ ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں حجر اسود کا بوسہ لینے یا اسے چھونے کا موقع نہیں ملتا۔ یوں بھی اپنے آپ کو مشقت اور تکلیف میں ڈال کر حجراسود کا بوسہ لینا مناسب نہیں ،ایسا کرنا مکروہ ہے۔ 
طواف کا طریقہ:
اس کے بعد اسی جگہ اپنا رخ اس طرح پھیرلیں کہ بیت اللہ ہمارے بائیں جانب ہو اور پھر طواف شروع کریں۔ ایک طواف میں سات چکر ہوتے ہیں، ہم حجر اسود سے اپنا چکر شروع کریں گے اور جب گھوم کر حجر اسود کے پاس آئیں گے تو ایک چکر پورا ہو گا۔اس طرح سات چکر میں آٹھ دفعہ حجر اسود کی جانب اشارہ ہوگا،ہر بار حجر اسود کے سامنے آکر دونوں ہاتھوں کو کانوں کے مقابل لائیں ہتھیلیوں کو حجر اسود کی طرف رکھیں ،اور ہاتھوں کے پشت کا حصہ اپنی جانب،اور پھر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اگلا چکر شروع کریں۔
 طواف کے دوران دین ودنیا سے متعلق جو کچھ دعا کرنا چاہیں کرسکتے ہیں دوران طواف دعا اور ذکر افضل ہے ،بعض حضرات قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں یہ بہتر طریقے کے خلاف ہے ،طواف کے دوران سلام ،مصافحہ اور ضروری گفتگو کی بھی گنجائش ہے ،البتہ غیر ضروری گفتگو نہ کریں۔طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا آپ ﷺ سے منقول ہے:رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌.(ابوداؤد)واضح ہوکہ بیت اللہ شریف کے چار کو نے ہیں، جب حجر اسود سے چلنا شروع کریں گے تو دوبارہ حجر اسود کے آنے سے پہلے رکن یمانی آئے گا۔ 
طواف کے دوران مذکورہ بالادعا کے علاوہ آپ جس زبان میں جو دعا مانگنا چاہیں، مانگ سکتے ہیں، البتہ یہ خیال رہے کہ ہمارے دعا مانگنے کے انداز سے دوسروں کو حرج نہ ہو ، بعض لوگ انتہائی بلند آواز سے دعا مانگتے ہیں جس سے دوسروں کو حرج ہوتا ہے۔
رمل کسے کہتے ہیں؟:طواف کے پہلے تین چکروں میں مرد حضرات کو رمل کرنا ہے، رمل سنت ہے اور اس کا مطلب دوڑنا اور بہت تیز چلنا نہیں ہے، یوں بھی وہاں تیز چلنے کی گنجائش نہیں ہوتی، رمل کا مطلب ہے مرد حضرات سینے کو کسی قدر نکال کر یعنی اکڑ کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھ بہادروں کی چال چلیں۔ البتہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ رمل کی وجہ سے دوسرے طواف کرنے والوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ 
مسئلہ: جس طواف کے بعد سعی ہو اس میں رمل کرنا ہے اور اگر احرام کی حالت میں ہو تو اضطباع بھی کرنا ہے۔ اضطباع کے لئے احرام ضروری ہے لیکن رمل کے لیے احرام ضروری نہیں ہے ۔
مسئلہ: رمل طواف کے شروع کے تین چکروں میں ہی سنت ہے۔ اس لئے اگر ہم پہلے چکر میں رمل کرنا بھول جائیں تو پھر صرف دوسرے اور تیسرے چکر میں رمل کریں گے، اور اگر پہلے اور دوسرے چکر میں رمل چھوٹ جائے تو صرف تیسرے چکر میں رمل کریں گے اور اگر شروع کے تینوں چکروں میں رمل بھول جائیں تو پھر بقیہ چار چکروں میں رمل نہیں کریں گے۔
مسئلہ: طواف کی حالت میں بیت اللہ کو دیکھنا ممنوع ہے، اس لئے دوران طواف اپنی نگاہ نیچی رکھیں،لہذاطواف کی حالت میں اپنا رخ سامنے رکھیں،یعنی حجر اسود کے علاوہ کسی بھی جہت میں بیت اللہ کی طرف نہ ہمارا سینہ ہو اور نہ ہماری پیٹھ ہو۔ علماء کرام نے لکھا ہے کہ طواف کی حالت میں اگر بیت اللہ کی طرف سینہ یا پیٹھ کرکے قدم دو قدم چل لیا جائے تو وہ چکر ضائع ہوجائے گا۔ اگر اس چکر کو باقی رکھنا ہے تو جتنا قدم آگے بڑھے ہیں ،اتنا ہی قدم پیچھے آئیں اور پھر وہاں سے چلنا شروع کریں۔اس لیے کہ اگر سینہ یا پشت کعبۃ اللہ کی طرف ہوجائے اور طواف کا کچھ حصہ اسی طرح گزر جائے تو اس چکر کو دوبارہ ادا کرنا ہوگا ورنہ طواف ناقص رہے گا اور دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوگا۔ اگر دوبارہ ادا نہ کیا جائے تو قربانی واجب ہوگی ۔
دو رکعت واجب الطواف:طواف کے سات چکر مکمل ہو جانے کے بعد دورکعت نماز واجب الطواف پڑھنی ہے،خواہ طواف فرض ہو یا واجب یا نفل!اس لئے طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم پر پہنچیں اور وہاں پہنچ کر یہ آیت پڑھیں: وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی
ترجمہ: تم مقام ابراہیم کے پاس اپنا مصلیٰ بناؤ۔(سورہ بقرہ)یہ آیت پڑھ کر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت واجب الطواف پڑھیں۔ان دو رکعتوں کا مقام ابراہیم کے قریب پڑھنا بہتر ہے، لیکن اگر طواف کرنے والوں کا ہجوم ہو اور یہاں پر نماز ادا کرنا لوگوں کے لئے دشواری کا باعث ہو تو پوری مسجد حرام میں جہاں بھی جگہ ملے ہم طواف کی یہ دو رکعتیں پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ پڑھیں۔ ان دو رکعتوں میں آپﷺ نے سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھی ہے۔ بعض لوگ مقام ابراہیم پر ہی نماز پڑھنا ضروری سمجھتے ہیں، اور اسی جگہ نماز شروع کردیتے ہیں۔بعض مرتبہ نماز پڑھنے والے لوگ اس کوشش میں دب جاتے ہیں، اس لئے اس سے اجتناب بہتر ہے ۔
دو رکعت نماز واجب الطواف پڑھنے کے بعد نبی کریم ﷺ نے ملتزم سے چمٹ کر دعا مانگی تھی اس طرح سے کہ آپﷺ نے بیت اللہ کے دروازے اور حجراسود کے درمیان کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور اپنا رخسار بیت اللہ کی دیوار سے چمٹایا، اور پھر آپ ﷺ نے زاروقطار رو کر دعا کی۔ مگر یہ عمل اس وقت کرنا درست ہے جبکہ ہمارے عمل کی وجہ سے خود ہمیں یا دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے، چنانچہ اب ملتزم پر بھیڑ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ اس طرح دعا نہیں کر سکتے ،نیز اس جگہ خوشبو بھی لگی ہوتی ہے اور ہم احرام کی حالت میں ہوتے ہیں،اس لئے ملتزم کے سامنے جہاں بھی کھڑے رہنے کی گنجائش ہو ،ہم وہاں کھڑے رہ کر دعا کریں۔ 
زم زم کی برکات:
اس کے بعد خوب سیر ہو کر زم زم کا پانی پئیں۔طواف کرلینے کے بعد ہمیں زم زم پینا ہے ،پہلے زم زم کے کنویں تک پہنچنے کا راستہ تھا حضور نبی کریمﷺزم زم کے کنویں تک گئے آپﷺ نے خود ڈول سے پانی نکالااور کھڑے ہو کر ڈول سے منھ لگا کر سیر ہوکر پانی پیا اور پھر جو بچ گیا، آپﷺ نے اسے واپس زم زم کے کنویں میں ڈال دیا ۔اس طرح زمزم کے دیگر فضائل اور برکات کے علاوہ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ نبی کریمﷺکا جھوٹا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:مَاءُ زَمْزَم لِمَا شُرِبَ لَہُ یعنی زم زم کا پانی جس مقصد سے پیا جائے اللہ اس مقصد کو پورا کر دیتے ہیں۔( سنن ابن ماجہ)
  حضرت عبداللہ بن مبارکؒ جب زمزم کے پاس پہنچے توکہنے لگے :اے اللہ مجھے مومل نے ابوزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابررضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مَاءُ زَمْزَم لِمَا شُرِبَ لَہُاے اللہ !میں روزقیامت کی تشنگی دورکرنے کے لیے زم زم پی رہاہوں۔یعنی اے اللہ! مجھے قیامت کے دن کی پیاس سے بچالے۔حدیث پاک میں آتا ہے کہ موت کے وقت پیاس کی ایسی شدت ہوتی ہے کہ سمندر بھی پلا دیا جائے تو پیاس نہ بجھے۔ ہمیں یہ دعا کرنا چاہیے کہ اے اللہ! موت کے وقت اور میدان محشر میں پیاس کی شدت اور گھبراہٹ سے ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھنے کے فیصلے فرما ۔ اس کے علاوہ ہم جو دعا مانگنا چاہیں، مانگ سکتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جب وہ زم زم پیتے تویہ دعا پڑھتے : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَشِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَاءٍ(اے اللہ ! میں علم نافع اوررزق کی کشادگی اورہربیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں۔)
مسئلہ:زمزم پینے میں سنت یہ ہے کہ پیٹ بھر کرپیا جائے اورتشنگی مکمل طور پرجاتی رہے ، فقہاء کرام نے زم زم پینے کے کچھ آداب بیان کیے ہیں جیسے: قبلہ رخ ہونا ، بسم اللہ پڑھنا ، زم زم پیتے وقت تین سانس لینا ، پیٹ بھر کرپینا ، اور زم زم پی کرالحمدللہ کہنا ۔
مسئلہ:آب زم زم بیٹھ کر پینا بلاکراہت درست ہے ،البتہ کھڑے ہوکر پینامستحب ہے،کیونکہ نبی کریم ﷺ سے زمزم کھڑے ہوکر پینا ثابت ہے ۔
زم زم کے پانی سے وضو اور غسل کرنےکا حکم کیا ہے؟
جو شخص باوضو اور پاک ہو، وہ اگر محض برکت کے لیے آبِ زمزم سے وضو یا غسل کرے تو جائز ہے،لیکن بے وضو آدمی کا زمزم شریف سے وضو کرنا یا کسی جنبی کا اس سے غسل کرنا مکروہ ہے(جب کہ دوسرا پانی موجود ہو اگر دوسرا پانی نہ ہو تو پھر گنجائش ہوگی)، زمزم نہایت متبرک پانی ہے، اس کا ادب ضروری ہے، اس کا پینا برکت کا باعث ہے، اور چہرے پر، سر پر اور بدن پر ڈالنا بھی موجبِ برکت ہے، لیکن نجاست زائل کرنے کے لیے اس کو استعمال کرنا درست نہیں ۔
بعض فقہاء نے زم زم کوبطور زاد راہ دوسرے ممالک لے جانا مستحب قرار دیا ہے، اس لیے کہ اسے جوبھی بیماری سے شفا کے لیے پئے اسے شفا حاصل ہوتی ہے ،اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ بوتلوں میں زم زم بھرکے لائيں اورفرمانے لگیںکہ نبی ﷺ بھی بھرکرلاتے اوربیماروں پرانڈیلتے اورانہیں پلاتے تھے ۔ (سنن ترمذی)
صفا اور مروہ کی سعی :
زم زم پی لینے کے بعد صفا اور مروہ کی سعی کرنا ہے ،سعی کے لیے جانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر حجر اسود کے سامنے آ کر اس کا استلام کرنا مستحب ہے۔استلام کے بعد صفا نامی پہاڑی پر جانا ہے جو حجر اسود کے مقابل ہی واقع ہے اور اب پہاڑی کے چند پتھر علامتی طور پر باقی رکھے گئے ہیں، وہاں ہر فلور پر ایک ایسی جگہ بنا دی گئی ہے جہاں سے بیت اللہ نظر آتا ہے،اس لیے صفا پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رُخ ہوکرکھڑے ہو جائیں اور اس طرح نیت کریں: 
اے اللہ !میں عمرہ کے لئے صفا اور مروہ کی سعی کی نیت کرتا ہوں/کرتی ہوں، تو اسے میرے لئے آسان فرما اور قبول فرما۔
آنحضرت ﷺنے یہاں قریب پہنچ کر یہ آیت پڑھی ہے:إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْ‌وَةَ مِن شَعَائِرِ‌الله (صفااور مروہ اللہ تعالے کی نشانيوںمیں سے ہیں۔)اس لیے اس موقع پر اس آیت کا پڑھنا بہتر ہے۔
پھر اونچائی پر چڑھ کر کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرے، جس طرح دعا میں ہاتھ اٹھایاجاتا ہے ، اس طرح ہاتھ اٹھائیں ، تین مرتبہ’’ اللہُ اکبر ‘‘کہیں،تین مرتبہ’’ لااِلٰہَ الااللہ‘‘ کہیں اور دعا کریں، پھر درود شریف پڑھیں اور اپنے لئے اور سب مسلمانوں کے لیے دعا کریں۔ پھر میانہ رفتار سے مروہ کی طرف چل پڑیں۔
 رسول اللہ ﷺ سے صفا پر اس طرح کہنا منقول ہے:
  لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِيْ وَيُمِيْتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ ۔ أَنْجَزَ وَعْدَهُ . وَنَصَرَ عَبْدَهُ .وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ.
ترجمہ:اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، وہ اکيلا ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیںہے، بادشاہت اسی کی ہے، تمام قسم کی تعريفيں اسی کے ليے ہیں، وہ ہر چيز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی معبود حقيقی نہیں ہے، وہ اکيلا ہے، اس نے اپنا کيا ہوا وعدہ پورا کيا، اپنے ماننے والے بندہ (محمد ﷺ)کی مدد و نصرت کی اور اپنے دین کی مخالفت کرنے والوں کواسی اکيلے نے شکست دی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعائیں اس جگہ مانگی ہیں ان کے علاوہ ہم جو دعا مانگنا چاہیں مانگ سکتے ہیں۔کسی کو اگر اتنی طویل دعا یاد نہ ہو تو کلمہ طیبہ پڑھے، اللہ اکبر کہے اور دعا کرلے یہی کافی ہے۔
دعا سے فارغ ہو کر ہم سیدھے ہاتھ کی طرف صفا سے مروہ کی طرف جانے والے راستے پر چلیں گے، یہ راستہ ساڑھے چار سو میٹر یعنی تقریبا آدھا کلومیٹر کا ہے۔ ہم صفا سے مروہ کی طرف اپنی معتدل رفتار سے چلتے رہیں البتہ میلین اخضرین کے درمیان مردوں کو معمول کی رفتار سے تیز چلنا چاہیے، یہ وہ جگہ ہے جہاں سے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا کو حضرت اسماعیل علیہ السلام نظر نہیں آرہے تھے، اس لیے انہوں نے گہرائی کا اتنا حصہ دوڑ کر طے کیا تھا۔ اب اس پورے حصے پر ہرا لائٹ لگا ہوا ہے ۔بعض لوگ پورا حصہ دوڑتے رہتے ہیں اور بعض لوگ پورا حصہ معمول کے مطابق چلتے رہتے ہیں ،یہ دونوں طریقہ غلط ہے۔جہاں سے ہرا لائٹ شروع ہو گا، وہاں سے مرد حضرات تیز تیز چلیں گے اور جہاں ہرا لائٹ ختم ہو گا، وہاں سے معمول کے مطابق چلیں گے۔
مسئلہ: میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلنے کا حکم صرف مردوں کے لئے ہے،اس لئے عورتیں معمول کے مطابق ہی پورا راستہ طے کریں گی۔
جب ہم صفا سے مروہ تک آئیں گے تو یہ سعی کا ایک چکر پورا ہو جائے گا،حالانکہ یہ آدھا چکر ہے، لیکن اللہ نے کرم فرمایا کہ اس نے آدھے چکر کو پورا ایک چکر مان لیا۔ ورنہ ایک سعی کو پورا کرنے کے لئے سات کلومیٹر چلنا پڑتا۔ صرف ساڑھے تین کلومیٹر چلنے پر سعی مکمل ہوجاتی ہے۔جب ہم مروہ پر پہنچ جائیں تو پھر دعا کے وہی کلمات کہیں جو صفا پر ہم نے کہے تھے۔ اس کے علاوہ جو دعا مانگنا چاہیں مانگ سکتے ہیں۔ پھر ہم مروہ سے چل کر صفا پر پہنچیں گے تو یہ دو چکر ہو جائے گا۔ اس طرح سات چکر پورے کریں گے، ساتواں چکر مروہ پر پورا ہوگا۔اس کے بعد پھر دعا کریں گے ۔
مسئلہ: اگر اژدحام کی وجہ سے یا بھول کر ان دعاؤں کا اہتمام نہ کیا جاسکے اور صرف گزر جائیں تب بھی سعی مکمل ہوجائے گی، سعی کے درمیان جو اذکار یاد ہوں، پڑھتے رہیں اور جو دعا چاہیں کرتے رہیں، البتہ میلین اخضرین کے دوران یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ اِنَّكَ أَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَكْرَمُ.
ميرے رب! ميری مغفرت کر اور مجھ پر رحم کر، اور جو کچھ تو جانتا ہے اس سے در گزر کر، ا س لئے کہ توسب سے زيادہ عزت و کرم والاہے۔
مسئلہ: عذرکی وجہ سے ویل چیئر پر سعی کرنا جائز ہے۔سعی کے درمیان گفتگو کرنا مکروہ ہے۔سعی کے لیےپاکی کی حالت میں ہونا ضروری نہیں ہے۔لہٰذا عذر شرعی میں مبتلا خاتون سعی کرسکتی ہے۔سعی کے درمیان جماعت شروع ہو جائے تو سعی موقوف کرکے نماز ادا کر لیں ،پھر وہیں سے سعی شروع کرکے مکمل کرلیں۔
بال کاٹنا یا سر منڈانا:اب سعی مکمل ہوگئی، لیکن بال کاٹنے کے بعد ہی ہم احرام سے حلال ہوسکیں گے، اس لئے جو مرد ہیں، وہ اپنا سر منڈالیں ۔ عورتوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ اپنے سر کا چوتھائی بال ایک انگل کے برابر کاٹنے کا اہتمام کریں۔بعض مرد اور خواتین بال کاٹنے میں پس و پیش میں مبتلا رہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بغیر بال کاٹے وہ احرام سے نکل نہیں سکتے۔حضورﷺ کے ساتھ جن لوگوں نے حج کیا ان میں بعض لوگوں نے اپنا پورا سر منڈوا لیا تھا اور بعض لوگوں نے اپنا بال کاٹا تھا، حضور ﷺنے سر منڈانے والوں کو یہ دعا دی تھی: رَحِمَ اللہُ الْمُحَلِّقِیْن اےاللہ !سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت نازل فرما۔جنہوں نے بال کاٹا تھا انہوں نے کہا:وَالْمُقَصِّریْنَ یَا رَسُولَ اللہ! اللہ کے رسول! بال کٹوانے والوں پر بھی! تو حضور ﷺنے فرمایا: رَحِمَ اللہُ الْمُحَلِّقِیْناےاللہ !سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت نازل فرما۔جنہوں نے بال کاٹا تھا انہوں نے پھر کہا:وَالْمُقَصِّریْنَ یَا رَسُولَ اللہ!اللہ کے رسول بال کٹوانے والوں پر بھی!تو حضورﷺ نے فرمایا:وَالْمُقَصِّریْنَ یَا رَسُولَ اللہ اےاللہ! سر منڈانے والوں پر اپنی رحمت نازل فرما۔جنہوں نے بال کاٹا تھا انہوں نے پھر کہا:وَالْمُقَصِّریْنَ یَا رَسُولَ اللہ!اب حضورﷺ نے فرمایا:وَالْمُقَصِّریْنَ یَا رَسُولَ اللہَ !یعنی حضور ﷺ نے سر منڈوانے والوں کے حق میں تین مرتبہ دعا فرمائی اور بال کٹوانے والوں کے حق میں ایک مرتبہ دعا فرمائی۔
احناف کے یہاں سر کے ایک چوتھائی حصہ کے بال کا مونڈانا یا تراشوانا کافی ہے ؛ لیکن سنت کے خلاف ہے ، سنت پورے سر کے بال مونڈانا یاتراشوانا ہے ،اوراسی میں احتیاط ہے ؛ اور رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اس سے کم بال مونڈانے یا کٹانے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ؛ اس لئے زینت کے جذبہ کے تحت پورا سر نہ مونڈوانا ہرگز مناسب نہیں ، ایک مسلمان کو حج و عمرہ کی سعادت حاصل ہو اور وہ اپنی خواہش کی اتنی بھی قربانی نہ دے سکے ، یہ افسوسناک ہے۔
تیرا کرم کہ قوت پرواز پاگئے:
جب ہم سر منڈالیں یا بال کاٹ لیں تو ہمارا عمرہ پورا ہوگیا اور احرام کی پابندیاں بھی ختم ہو گئیں۔ اب ہم مسجد حرام میں آکر دورکعت نماز بطور شکرانہ کے ادا کرلیں۔واضح ہوکہ یہ دو رکعت نماز عمرہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنے کے لیے ہے کہ اللہ! تونے ہم جیسے ناتواں اور کمزور اور گناہ گار بندوں کو عمرہ جیسی اہم عبادت کی ادائیگی کے لئے اپنے در پر بلایا، اپنا مبارک گھر دکھایا اور عمرہ کی سعادت عطا فرمائی، ہم نے محض تیرے فضل و کرم سے اس عبادت کی ادائیگی کی ہے، اے اللہ! اب تو اس عبادت کو قبول فرمالے۔آمین
تھے بال وپرشکستہ فضاحوصلہ شکن
تیرا   کرم   کہ  قوت   پرواز   پاگئے
                             *-*-*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے