Ticker

6/recent/ticker-posts

سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

اصل قربانی تو باپ اور بیٹے کی گفتگو تھی
ہم نے دنبہ یاد رکھا، گفتگو بھول گئے!

تحریر: مفتی محمد عامر یاسین ملی مالیگاؤں

      حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالٰی نے بذریعہ خواب ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا حکم دیا تو اس حکم الہی کی تعمیل کے سلسلے میں انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ کیا،یہ واقعہ سیرت ابراہیمی کا اتنا اہم باب ہے کہ اس کے متعلق یہاں تک کہا گیا ہے کہ اصل قربانی تو باپ بیٹے کی یہی گفتگو تھی ،ہم نے دنبہ تو یاد رکھا لیکن گفتگو بھول گئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے مشورے کے طور پر کی گئی اس گفتگو کو نقل کیا ہے جس میں ہر باپ اور بیٹے کے لئے بہت ہی اہم اور قیمتی نصیحتیں پوشیدہ ہیں۔ ارشاد ربانی ہے :
’’پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ کام کاج کے لائق ہوگیا تو ابراہیم کہنے لگے:میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کررہا ہوں ، ذرا بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیاہے اسے کر گذرئیے ۔اللہ نے چاہا تو آپ مجھے جم جانے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
       قرآن کریم نصیحت کی کتاب ہے، آیئے غور کرتے ہیں کہ اس واقعہ سے ہمیں کیا نصیحتیں ملتی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سراپا اطاعت اورتسلیم و رضا کا پیکر ہوتے ہیں، اللہ رب العزت کا کوئی حکم آجانے کے بعد اس کی تعمیل ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے،غور کرنے کی بات ہے کہ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے اس سلسلے میں مشورہ کیوں کیا؟علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑکو بہر حال اس حکم پر عمل کرنا تھا، لیکن انہوں نے حضرت اسماعیل ؑ سے اس لیے رائے طلب کی تا کہ ذہنی طور پر وہ بھی اس حکم الٰہی کی تعمیل کے لیے تیار ہو جائیں ۔دوسری بات یہ کہ وہ اپنی تربیت اور بیٹے کی اطاعت گزاری اور وفاشعاری کو بھی جانچنا اور پرکھنا چاہتے تھے،تیسری مصلحت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے پیروکاروں کو اس عمل سے یہ پیغام دیا کہ اولاد جب بالغ ہو جائے تو اس کو اپنے مشورے میں شامل کرنا چاہئے،اور اولاد کی رائےکو بھی اہمیت دینی چاہئے۔ آج بہت سارے والدین اولاد کے باشعور اور بالغ ہونے کے باوجود گھر کے اہم فیصلوں میں ان سے مشورہ نہیں کرتے جس کے نتیجے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
      قارئین !اب حضرت اسماعیل ؑ کے جواب کودوبارہ پڑھئے، انہوں نے فرمایا :
    ’’ ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیاہے اسے کر گذرئیے ۔اللہ نے چاہا تو آپ مجھے جم جانے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
     دنیا آج بھی حیران ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ایک نوجوان بیٹا اپنے بوڑھے باپ کے کہنے پر اپنی گردن کٹوانے کےلیے تیار ہوسکتاہے؟ علامہ اقبال ؒ نے کیاخوب کہاتھا ؎
وہ فیضان نظرتھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
      جواب یہی ہے کہ ہاں !جب باپ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا مکمل اہتمام کرے، اولادپر اپنی محبت و شفقت نچھاورکرے،اس کو اپنے مشورے میں شامل کرے اور اولاد کی رائے کو اہمیت دے تو پھر اولاد بھی باپ کی نہ صرف مطیع و فرمانبردار ہوتی ہے بلکہ باپ کے کاموں میں اس کی معاون ومددگار بھی ہوتی ہے۔
     موجودہ زمانے میں باپ اور نوجوان بیٹوں میں بڑھتی ہوئی دوری بہت سارے مسائل اور غلط فہمیوں کو جنم دے رہی ہے، بعض گھروں میں ہفتوں اور مہینوں باپ اور بیٹے کے درمیان کوئی خاص بات چیت نہیں ہوپاتی، بالکل اجنبیت والا معاملہ ہوتا ہے کہ باپ گھر آئے تو بیٹا باہر چلا جاتا ہے اور بیٹا آئے تو باپ گھر سے باہر چلا جاتا ہے،آج اپنے نوجوان بیٹوں کےنافرمان، باغی اور سرکش ہونےکو لے کر والدین اور سرپرست حیران و پریشان ہیں، بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی اولاد نہ دینی کاموں میں ان کی اطاعت کرتی ہے، نہ ہی دنیاوی کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہے،اپنی اولاد کوفرمانبردار بنانے کےلیے بوڑھے والدین پریشان اور دعا کرواتے نظر آتے ہیں،ان کے لیے سیرت ابراہیمی کا یہ گوشہ ایک روشن باب ہے،جس پر عمل کر کے وہ اپنی اولاد کو فرمانبردار بناسکتے ہیں۔
     اس واقعے میں نوجوان بیٹوں کے لیے بھی حضرت اسماعیل ؑ کی اطاعت میں یہ نصیحت ہے کہ جب انہوں نے اپنے والد کی اطاعت کی تو اللہ پاک نے ان کو بلند مقام سے نوازا اور رہتی دنیا تک ان کے نام کو باقی رکھا۔ لہذا بیٹے بوڑھے باپ کے حکم کو پورا کرنا اپنی سعادت سمجھیں اور ہر جائز چیز میں باپ کی اطاعت کریں ۔ یہی اللہ پاک کی مرضی اور اس کا حکم ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ 
 فھل من مدکر( تو ہے کوئی جو نصیحت حاصل کرے؟)
                             ٭…٭…٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے