Ticker

6/recent/ticker-posts

وفاق المدارس والمکاتب مالیگاؤں کے زیر اہتمام

 میں نے جو دیکھا تحریر نمبر 101
تعلیمی وتربیتی ورکشاپ ایک مفید اقدام، معلمین استفادہ کریں !
            تحریر :مفتی محمد عامریاسین ملی

درس و تدریس انتہائی مقدس پیشہ کہلاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہرمذہب میں معلم اور استاذ کامقام بہت بلند تسلیم کیا گیا ہے، اسلام میں استاذ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ سرور کائناتﷺ معلم بناکر بھیجے گئے تھے، ایک کامیاب کی تمام تر خوبیاں اور صفات آپ کے اندر پورے طور پر موجود تھیں، جن کی بدولت آپ پوری دنیا کے اساتذہ کے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں ، ہر استاذ کو چاہیے کہ وہ کامیاب استاذ بننے کے لیے بطور معلم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ضرور مطالعہ کرے ۔
  قارئین! جس طرح اپنے بچوں کی پرورش کرنے والاشخص ان کا حقیقی باپ کہلاتا ہے ، اسی طرح اپنے شاگردوں کو تعلیم وتربیت کے زیور سےآراستہ کرنے والا استاذ ان کا روحانی باپ کہلاتا ہے جو درحقیقت ان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے ،کسی نے خوب کہا ہے کہ ماں باپ اولاد کو آسمان سے زمین پر لاتے ہیں ،جب کہ استاذ ان کو زمین کی پستی سے آسمان کی بلندی پر لے جاتا ہے ،چنانچہ صرف والدین کے سایۂ عاطفت سے محرومی ہی اولاد کو یتیم نہیں بناتی بلکہ یتیم تو وہ بھی ہوتے ہیں جو کبھی کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کرتے اور نتیجہ میں علم وادب سے محروم رہ جاتے ہیں ؎
ليس اليتيم الذي قد مات والدہ
إن اليتيم يتيم العلم والأ دب
ترجمہ : یتیم وہ شخص نہیں ہے جس کا باپ مرگیا ہو، حقیقی یتیم تو وہ ہے جو علم وادب سے محروم رہاہو۔
استاذ کے اس مقام بلند سے جہاں اس کی شان وعظمت کااندازہ ہوتا ہے ،وہیں اس کی اہم اورنازک ذمہ داریوں کا بھی بخوبی احساس ہوتا ہے ،قوم کے معصوم بچوں کو سنبھالنا ،ان کو لکھنا پڑھنا سکھانا،آداب زندگی سے ان کو واقف کرانا اور ان کی بے ادبی اور دوسری کوتاہیوں کو برداشت کرنا کوئی منہ کا کھیل نہیں ، ہماری اپنی حقیقی اولاد ہماری بات نہ مانے ،پلٹ کر جواب دے اور نافرمانی کرے تو ذہن پریشان ہوجاتا ہے،دل بیٹھ جاتا ہے اور کبھی صبر بھی جواب دے جاتا ہےتو زبان پر سب ّ وشتم اور طعن وتشنیع کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں اور ہاتھ لاٹھی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں ،اب سوچئے کہ دوسروں کے بہت سارے بچوں کوپڑھانا اور سنوارنا کس قدر غیر معمولی کام ہے ،استاذ کو جہاں علم وفن کا ماہر ہونا چاہیے وہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فن تدریسی سے واقف ہو اور طلبہ کی نفسیات اور ان کو قابو میں رکھنے کے ہنر سے آگاہ ہو۔تبھی وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ سے پورا کر سکے گا اوراپنا علم طلبہ میں منتقل کرسکےگا ۔تعلیم وتدریس ایک فن ہےجس کوسیکھنے کے لیےمحنت ،ذہانت اور دلچسپی ضروری ہے، ساتھ ہی ساتھ کسی ماہر اور تجربہ کاراستاذ کی صحبت اور نگرانی میں رہ کر کچھ دن مشق بھی ضروری ہے، جس طرح ایک میڈیکل کالج کا طالب علم کسی سینئرڈاکٹر کی ماتحتی میں کچھ عرصہ پریکٹس کرتا ہے، افسوس کہ مدارس و مکاتب میں اس طرح کا کوئی خاص نظام نہیں ہے ، عموماً کسی بھی مدرسے یا مکتب سے فارغ ہونے والاطالب علم کچھ ہی دنوں میں استاذ بن جاتاہےاور پھر تعلیم وتربیت کے اصو ل و آداب سے ناواقفیت کے نتیجہ میں وہ خود بھی پریشان رہتاہے اور طلبہ بھی کوفت اور بے چینی محسوس کرتے ہیں۔
قابل مبارکباد ہیں وفات المدارس والمکاتب کے ذمہ داران جنہوں نے مدارس ومکاتب کے نظام کو مستحکم کرنے کی غرض سے ایک متحدہ پلیٹ فارم قائم کیا ہے اور اب مورخہ ۸؍ اگست کواسی پلیٹ فارم کے زیراہتمام ایک انتہائی اہم تعلیمی وتربیتی ورکشاپ مکاتب کےاساتذہ کےلیےمنعقد کررہے ہیں جس میں تعلیم کی تربیت اورتربیت کی تعلیم کے موضو ع پر ماہرین تعلیم اور تجربہ کار اساتذہ اپنا محاضرہ پیش کریں گے، نیز حضرت مولانا صلاح الدین سیفی صاحب اور مقامی اکابر علماء کرام کے اصلاحی بیانات ہوں گے ۔ مکاتب کے تمام اساتذہ کو اس زرین موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
٭…٭…٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے