ہم اپنے مسائل ہم خود حل کرنے کی کوشش کریں!
از:ضیاء احمد ظہیر احمد حکیم
کچھ روز پہلے اخبارات میں پڑوسی ملک کی ایک خبر شائع ہوئی ،ہوایوں کہ ایک معروف چوراہے پر نصب سگنل بند ہوگیا ،جہاں چند پیشہ ور بھکاری ریڈسگنل پر رک جانےوالی سواریوں کےمالکان سے بھیک مانگاکرتے تھے،سگنل بند ہواتو سواریاں نہ ٹھہرنے کے باعث فقیروں کوبھیک ملنی بھی بند ہوگئی۔کئی روزگزرگئے لیکن ٹریفک محکمہ کی جانب سے سگنل کا پول دوبارنصب نہیں کیا گیا ،ادھربھیک نہ ملنے کےنتیجے میں بھکاری پریشان ہوگئے ،اور نوبت فقر وفاقے تک جاپہنچی ،چنانچہ تمام بھکاریوں نے مشورہ کرکے فیصلہ کیا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں ٹریفک محکمہ سےمطالبہ کرتے رہنے اور اس کی جانب سے عملی اقدام کا انتظار کرنے کےبجائے ہم خود اسے حل کرنے کی کوشش کریں گے ،اس کے انہوں نے روپیہ پیسہ اکٹھاکیااوراپنےخرچ پرسگنل درست کروالیا،اب سواریاں دوبارہ رکنے لگیں اور ان فقیروں کامسئلہ حل ہوگیا ۔
قارئین!بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن اس میں ہم سب کے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ اپنے مسائل کو حل کرنے میں پہلاقدم ہم خود آگے بڑھائیں،عموماً ہوتایہ ہے کہ جب بھی کوئی عمومی پریشانی آتی ہے،اولاًتوہم لوگ یہ سوچ کراس کونظر اندازکرتے اور سہتےہیں کہ یہ خالص میری ذاتی پریشانی نہیں ہے، اور صرف میں ہی اس کے لیے جدوجہد کیوں کروں ؟ حالانکہ ہر ایک کی چاہت ہوتی ہے کہ آئی ہوئی پریشانی دور ہو جائے ، لیکن اس کے لیے وہ اپنے بجائے دوسروں سے عملی اقدام کی توقع رکھتا ہے ،ظاہر ہے کہ اگر ہر شخص اسی طرح سوچتا رہے تو کوشش کا آغاز کیسے ہوسکے گا ؟ بقول شاعر
ہر ایک شخص کو خواہش ہے روشنی کی مگر
سوال یہ ہے کہ پہلا دیا جلائے کون
ہم میں زیادہ تر لوگ اپنی پریشانی کو دور کرنے کے لیے ذاتی طور پر جدوجہدکرنےکےبجائے اس کو حکومتی سطح پر حل کرنے پر ہی سارازور صرف کردیتے ہیں ،ظاہربات ہے کہ سرکاری کام کاج اتنی آسانی کےساتھ اور بروقت نہیں کیے جاتے ، لوگ اس انتظار میں میمورنڈم، ملاقات اور احتجاج کرنے کی راہ پر چلتے رہتے ہیں ،اس دوران اچھاخاصاوقت امید اور انتظار میں گزرجاتاہےاور مسائل میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے،اگر لوگ اپنے طور پر آنے والی پریشانیوں کےاسباب و وجوہات کاجائزہ لیں اورغور وخوض کرکےان کو حل کرنے کی کوشش شروع کردیں تو بہت سارےمسائل خود ہی حل کرسکتے ہیں۔یہ طریقہ ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھ کر مسائل کے خود بخود حل ہونے کاانتظار کرنے اور یہاں وہاں شکوہ کرتےرہنےسےبہترہے۔معروف شاعراحمدفراز نے یہی پیغام دیتے ہوئےکہاتھا ؎
شکوہ ٔظلمت شب سےتو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
قارئین!تقریباً ایک سال سے ہماری آبائی اور ہمارے شہر میں معاشی لحاظ سےریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی صنعت ’’پاورلوم‘‘پر سخت معاشی مندی چھائی ہوئی ہے ،ہمارے بنکرحضرات اورمزدوربھائی بہتر جانتے ہیں کہ وہ کیسی تنگی اور پریشانی سے گزررہے ہیں ،نہ معلوم کتنے کارخانے بند اور کتنے بنکرحضرات قرض کے بوجھ تلے دب چکے ہیں ،سبب کے درجے میں کی جانے والی متعدد کوششوں کے باوجود مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے ،اس کے باوجود ہم لوگ ان مسائل کے اصل اسباب پر غور کرنےکے لیے تیارنہیں ہیں ،افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام نے ہمیں تجارت کےجو زرین اصول عطا کیےتھے ،ہم نے ان کو بھی یکسر نظر انداز کردیا ،ہم برسوں سے کاروبار کررہے ہیں لیکن ہم نے کبھی تجارت سے متعلق اسلامی ہدایات جاننے اور اس پر عمل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی،اسی کے ساتھ ساتھ کاروبار کرتے ہوئے ہم سے جو سنگین غلطیاں سرزد ہورہی ہیں ،ہم ان سےبھی صرف نظر کرتے رہےاور اس امیدکے ساتھ کاروبار کرتے رہے کہ خدا تعالیٰ خود ہی حالات کو سنوار دے گا ۔یاد رکھئے!
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم اپنے بنکر اورمزدور بھائیوں کی خدمت میں پاور لوم صنعت پر آئی ہوئی معاشی مندی کے اسباب اور ان کا حل پیش کررہے ہیں اس امید پر کہ وہ پیش کی جانے والی باتوں پر خلوص دل سے غور کرتے ہوئے ان پر عمل بھی کریں گے:
(۱)اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہے اور حصول رزق کے لیے جدوجہد کا حکم بھی دیا ہے ،لیکن ہم یہ بھی جانتے ہے کہ اللہ ہی رزاق حقیقی ہےاور ہمارااصل مقصد زندگی اللہ کی عبادت واطاعت ہے۔افسوس کہ ہم حصول رزق میں ایسے مشغول ہوجاتے ہیں کہ رزاق حقیقی کے حکموں کو فراموش کر بیٹھتے ہیں ،بطور خاص فرض نمازوں کے سلسلے میں ہم سے بڑی کوتاہی سرزد ہوتی ہے ،بقول شاعر ؎
خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
خیال رزق ہے رزاق کا خیال نہیں
اگرپاورلوم صنعت سے وابستہ
ہمارے بنکر اور مزدور بھائی پنج وقتہ نمازوں کااہتمام کرنے لگیں تو یہی ایک عمل ہماری معاشی تنگی کو دور کرسکتا ہے ،میرا یہ ذاتی مشورہ ہے کہ ہر ایک کارخانے دار (سیٹھ)اپنے مزدوں کو پابند کردے کہ اذان ہوتے ہی کارخانہ بند کردیا جائے اور نماز کے فوراً بعد شروع کیاجائے ،اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پنج وقتہ نمازوں کے لیے کم ازکم ڈھائی گھنٹہ کارخانہ بند رہے گا ،اس کی وجہ سے ہمارا نقصان ہرگز نہیں ہوگا ،اس لیے کہ ہم اس ڈھائی گھنٹے کو رزاق حقیقی کی بارگاہ میں صرف کریں گے جو ساری مخلوقات کو روزی دینے والاہے۔
(۲)تجارت کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ اتنا ہی مال تیار کیا جائے جتنی مارکیٹ میں اس کی ڈیمانڈ اور کھپت ہو، جو چیز بھی ضرورت سے زائد دستیاب ہوتی ہے اس کی قدر وقیمت میں خود بخود کمی واقع ہوجاتی ہے ،اس اصول کے تناظر میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم ڈیمانڈ سے کئی گنا زیادہ مال(کپڑا)تیار کرلیتے ہیں اور پھر اس کو فروخت کرنے کے لیے بیوپاریوں کی منت سماجت کرتے ہیں ،یہاں تک کہ ہم اس کو نقصان کے ساتھ بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔اس کے برعکس ہم جن لوگوں سے سوت خریدتے ہیں وہ مذکورہ اصول کی روشنی میں ہماری ڈیمانڈ کے مطابق ہی ہمیں مال دستیاب کراتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سوت کا بھاؤ کبھی کم نہیں ہوتا لیکن کپڑے کے بھاؤ میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے،کاش کہ ہمارے بنکر بھائی اس بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر کاروبار کریں تو اس کے اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
مال کم تیار کرنے اور ڈیمانڈ نہ ہونے کی صورت میں کارخانہ کچھ دن بند رکھنے یا بارہ گھنٹے کے بجائےآٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی طے کرنے کی جب بات آتی ہے تو سوال اٹھتا ہےکہ مزدور بھائیوں کی تنخواہ کیسے ادا کی جائے ؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہم بیوپاریوں کو کم قیمت میں کپڑا فروخت کرکے جونقصان برداشت کرتے ہیں ،اگر اتنا ہی پیسہ ہم اپنے مزدور بھائیوں کو احسان اور نیکی کی نیت سے دے دیں تو ایسی صورت میں ہمیں اجرو ثواب بھی ملے گا اور جب کپڑا کم تیار ہوگا تو خریدنے والے اس کی صحیح قیمت ادا کرنے پر مجبور بھی ہوں گے ۔
(۳)اسلام ایک ایسا مکمل مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کی زندگی کی ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے ،چنانچہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کاروبار اور ملازمت سے متعلق ہمیں بڑی اہم ہدایات اور زرین اصولوں سے نوازا ہے ،تجارت ایک اہم شعبہ ہے ،جس میں داخل ہونے سے پہلے اس کے اصول وآداب اور باریکیوں کو سیکھنا ضروری ہے ،ناواقفیت کے نتیجے میں نقصان لازمی چیز ہے ،بڑے افسوس کے ساتھ عرض ہے کہ کاروبار کرنے والے اکثر افراد دیکھا دیکھی کاروبار کرتے ہیں اور صحیح طور پر کاروبار کو سیکھنے اور اس کے دینی اور دنیاوی اصول آداب کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے ،لہذا درخواست ہے کہ ہم اپنا کچھ وقت فارغ کر کے تجارت کے اصول وآداب معلوم کرنے اور سیکھنے کی کوشش کریں ۔
(۴)دنیا بڑی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اورہر گزرتے دن کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی واقع ہورہی ہے ،بقول شاعر
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
سوچنے کا مقام ہے کہ ہم برسوں سے ایک ہی طریقے پر کاروبار کررہے ہیں ،ہم ایسا کپڑا تیار کررہے ہیں جو خود ہم بھی نہیں پہنتے،اس لیے ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی صنعت میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟مثلاً سادے پاور لوم کی جگی آٹومیٹک پاور لوم لگانا ،سادے کپڑے کی جگہ اور بھی زیادہ معیاری کپڑا تیار کرنا،کم جگہوں پر کاروبار کرنے کے بجائے تجارتی علاقوں میں کھل کر کاروبار کرنا تا کہ حکومتی سطح پر جو سہولیات اور اسکیمیں دی جاتی ہیں ہم ان سے بھی فائدہ اٹھاسکیں۔اسی طرح کمزوری کے ساتھ ادھار رقم لے کر کاروبار کرنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ کاروبار کرنا تا کہ بیوپاری لوگ ہمارا استحصال نہ کرسکیں۔
(۵)اللہ رب العزت کا وعدہ ہے کہ وہ جائز طریقے پر تجارت کرنے والوں کو برکت سے نوازے گا اور سودی لین دین والے بہر حال نقصان اور تباہی سے دوچار ہوں گے،اسلام میں سودی لین دین بالکل حرام ہے یہ بات ہم سب جانتے ہیں ،اس کے باوجود (ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ)بہت سارے لوگ سودی لین دین میں ملوث ہوجاتے ہیں ،ہماری معاشی پستی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے ،لہذا تمام بنکر بھائیوں سے یہ بھی درخواست ہے کہ سودی لین سے اپنے آپ کو پورے طور پر بچائیں اور علماء کرام سے پوچھ کر جائز اور حلال طریقے پر ہی اپنے کاروباری معاملات پورے کریں۔
ہمیں امید ہے کہ ان تمام گزارشات پر فوری توجہ دی جائے گی اور ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شرعی طریقے پر کاروبار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پاور لوم صنعت پر چھائی ہوئی معاشی مندی کا خاتمہ فرمائے۔آمین
*-*-*
0 تبصرے