Ticker

6/recent/ticker-posts

لوگوں کو عبادت سے دور نہ کریں

از : مفتی محمد عامر یاسین ملی

     رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اہل ایمان کا دل عبادت واطاعت کی جانب مائل ہوجاتا ہے ،چھوٹے بڑے ،جوان بوڑھے اور مردوعورت ،سب کے سب اپنے اپنے ذوق اور ہمت کے لحاظ سے روزہ ،تراویح ،تلاوت قرآن اور ذکر ودعا میں مشغول نظر آتے ہیں ،یہ رمضان کا کرشمہ ہی ہے کہ سال بھر سوائے نماز جمعہ کے مسجد کا رخ نہ کرنے والے افراد بھی پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام کرنے لگتے ہیں ،ان کو دیکھ کر بعض حضرات طرح طرح کے فقرہ کستے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں مثلاً آگئے رمضانی مسلمان ، چودہویں کا چاند نظر آگیا ، مل گئے گمشدہ نمازی ،چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے ۔ 
اس طرح کے فقرے کسنے والے شاید نہیں جانتے کہ ان کا یہ عمل کتنی خرابیوں پر مشتمل ہے مثلاً
(الف) وہ دوسروں کو طعنہ دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم تو بڑے پکے مسلمان ہیں جو سال بھر عبادت کرتے ہیں، یہ احساس درحقیقت اپنی عبادت پر غرور کا نتیجہ ہے ، اور غرور ساری عبادتوں کو برباد کرنے والی چیز ہے ۔
(ب)طعنہ اور تنقید سے وہ دوسرے لوگوں کو عبادت سے دور کررہے ہیں ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن طعنہ مارنے والا، لعنت کرنے والا، بےحیا اور فحش گو نہیں ہوتا ہے۔(ترمذی)
(ج)دوسروں کا مذاق اڑاکر وہ دل آزاری کا گناہ اپنے سر مول لے رہے ہیں ۔
(د) ان طنزیہ جملوں کی وجہ سے بعض لوگ شرمندگی محسوس کرتے ہیں یہاں تک کہ مسجد میں آنا ہی بند کر دیتے ہیں ۔
   اس لیے اس حرکت سے بچنا چاہیے اور یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم اگر عبادت کررہے ہیں تو یہ ہمارا کمال نہیں بلکہ محض توفیق الٰہی کا نتیجہ ہے ،لہذا اپنی عبادت میں اخلاص پیدا کرنے اور بارگاہ الٰہی میں اس کی قبولیت کی فکر کرنی چاہیے ۔ساتھ ہی ساتھ جو لوگ جس درجہ میں بھی عبادت کررہے ہیں، مثلاً کچھ لوگ صرف جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں، بعض حضرات چار وقت پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں لیکن فجر میں نہیں اٹھ پاتے، بعض لوگ روزہ رکھنے میں کوتاہی کرتے ہیں ، بعض لوگ شروع رمضان میں تراویح کے لیے مسجد میں نظر آتے ہیں اور پھر چند دنوں کے بعد غائب ہوجاتے ہیں ، ایسے تمام لوگوں کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور انہیں ترغیب دینی چاہیے تا کہ وہ دین سے اور زیادہ قریب ہو جائیں اور آئندہ بھی استقامت کے ساتھ عبادت کرتے رہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :
يسِّروا ولا تعسِّروا، وبشِّروا ولا تنفِّروا (متفق عليه)
 آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو ،خوش خبری دو، متنفّر نہ کرو۔
    اگر ہمیں دین پھیلانے کی محنت کرنی ہی ہے اور عام مسلمانوں کے دین و ایمان کی واقعی فکر ہے تو جو لوگ دین سے بالکل دور ہیں ، نہ روزہ رکھتے ہیں نہ فرض نمازوں اور تراویح کا اہتمام کرتے ہیں ، ایسے لوگوں پر زیادہ محنت کریں اور جو تھوڑا موڑا عمل (روزہ ،تلاوت ،نماز، تراویح) انجام دے رہے ہیں ،ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے حق میں دعا کریں ،لیکن کسی پر طنز نہ کریں ، اور نہ کسی کو شرمندہ کریں ،نہ اپنے قلم سے نہ اپنے جملوں سے ! کیا عجب کہ ہم جن لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ خدا کے نزدیک ہم سے بہتر ہوں ۔ یاد رکھیے کہ خدا کے یہاں عبادات کی کثرت نہیں بلکہ کیفیت کا اعتبار ہوتا ہے ۔ اس کے یہاں اخلاص کی بنا پر کھجور کی گٹھلی کے برابر صدقہ بھی قبول کرلیا جاتا ہے اور بغیر اخلاص کے پہاڑ کے برابر سونا بھی دیدیا جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے