تحریر : محمد عامر یاسین ملی
حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، ( ایک جگہ ٹھہرے ) تولوگوں نے( ضرورت سے زیادہ جگہیں گھیر کر) منزلوں کو تنگ کر دیا ، اور راستے بند کر دیے ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے منزل تنگ کی یا راستہ بند کیا تو اس کا کوئی جہاد نہیں ۔‘‘ ( ابوداؤد)
قارئین! مندرجہ بالا حدیث کو پڑھیں اور غور کریں کہ وقت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دنیا کی بہترین جماعت (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) نے جہاد کیا لیکن راستہ تنگ کردیا تو کہا گیا کہ ان کے اس عظیم الشان عمل کا کوئی اعتبار نہیں، تو بتائیں کہ ہمارے معاشرے میں
1) جو لوگ مسجدوں کے باہر بے ترتیب سواریاں لگادیتے ہیں جس کی وجہ سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور راہگیروں کو دشواری ہوتی ہے ، کیا اللہ کے نزدیک ان کی عبادت معتبر ہوگی ؟
2) جو لوگ بیچ راستے اور چوراہے پر اسٹیج لگا کر پروگرام کرتے ہیں ، کیا ان کا پروگرام مفید ہوگا ؟
3) جو لوگ راستے میں اتی کرمن کرکے کاروبار کرتے ہیں ، کیا ان کے کاروبار میں برکت ہوگی ؟
4) جو لوگ عام شاہراؤں اور گلی محلوں میں اسپیکر لگا کر بلند آواز سے وعظ و نصیحت کرتے ہیں، یہاں تک کہ مساجد کے اسپیکر کا بھی غیر ضروری استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے آرام کرنے والوں اور بیماروں کو تکلیف پہنچتی ہے ، کیا ان کے وعظ و نصحیت میں تاثیر ہوگی ؟
5) جو لوگ شادی بیاہ ،ولیمہ اور دیگر نجی تقاریب کے موقع پر پورا پورا دن شامیانہ لگا کر راستہ بند کئے رہتے ہیں ، کیا ان کو نکاح کی خیر و برکت حاصل ہوگی ؟
قارئین! تھوڑا نہیں زیادہ سوچئے، ساتھ ہی اپنے آپ کا بھی اور اپنے سماج کا جائزہ لیجئے اور ہوسکے تو ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کیجئے ، جو ہمارے اعمال کا اعتبار گھٹا دیتی ہیں اور نیکیوں کو ضائع کر دیتی ہیں ۔ تحریر میں جن پانچ باتوں کی نشاندھی کی گئی ہے آج ان کی وجہ سے پورا شہر تکلیف میں مبتلا ہے ، لیکن کیا کریں کہ تکلیف دینے والے بھی ہم ہیں اور تکلیف اٹھانے والے بھی ہم ۔ شاید ہم یہ بھول گئے ہیں کہ نجات کے لیے صرف خالق کی عبادت کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کریں اور اپنی ذات سے بندگان خدا کو تکلیف نہ پہنچائیں !
0 تبصرے