تبصرہ نگار:عبد العظیم فلاحی
(سابق امیر جماعت اسلامی مالیگائوں)
طالب علمی کے زمانے میں جامعۃ الفلاح(اعظم گڑھ یوپی) میں مولانا عمران احمد فلاحی صاحب’’السراجی فی المیراث ‘‘(جو یوپی کے مدارس میں عام طور پر پڑھائی جاتی ہے ) جو پڑھنے اور سننے میں بہت دلچسپ لگتی تھی مگر میرا ث کے حسابات کو یاد رکھنا یا ہم لوگوں کو بطورمشق کسی مسئلہ کا دیا جانا اور اس کو حل کرنا مشکل ترین معلوم ہوتا تھا ۔
علم الفرائض یا علم میراث کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے اس پر قلم اٹھاناایک زیرک اور رجل صالح کا ہی کام ہوسکتا ہے اور ان ہی ذہین اور باصلاحیت افراد میں سے ایک رفیق محترم مفتی محمدعامر یاسین ملی صاحب (زادہ اللہ علماونفعًا)ہیں کہ آپ نے ’’میراث کے مسائل اور ان کا حل‘‘کتابی شکل میں سوصفحات پر لکھ کر ایک زبردست علمی کارنامہ بلکہ میری زبان میں اہلیان مالیگاؤں پر ایک احسان عظیم کیا ہے۔ مصنف کا اپنی کتاب کو ان والدین کی طرف منسوب کرنا جو میراث کی تقسیم میں اپنی اولاد کے درمیان ناانصافی نہیں کرتے اور ایسے بھائیوں کی طرف جو میراث سے بہنوں کو محروم نہیں کرتے ،صاحب کتاب کا بہترین انتساب مانتا ہوں ۔
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے کتاب کا مقدمہ تحریر فرماکر اسے مزین کیا تو مفتی محمد جعفر ملی رحمانی صاحب کی تقریظ نے کتاب کے اعتبار میں اضافہ کیا ۔صفحہ ۱۵ پر کتاب میں بار بار آنے والے الفاظ اور ان کے معانی لکھ کر مصنف نے قاری کو آسانی فراہم کردی ،صفحہ ۹۶ پر فتویٰ طلب کرنے کے سلسلہ میںرہنمائی کر کے عوام وخواص کی زبردست رہنمائی فرمادی ،صفحہ ۱۶پر کسی کے انتقال سے پہلے وارثین کی ذمہ داریاں تو صفحہ ۲۲ پر مرحوم کی نمازوں اورروزوں کا فدیہ بیان کر کے عوام وخواص کو اس طرف توجہ دلائی ہے ۔
صفحہ ۲۳ پر ’’مہر‘‘ سے متعلق رہنمائی کر کے نوجوانوں اور بوڑھوں کو سوچنے پر مجبور کردیا،صفحہ ۲۵پر ’’وصیت‘‘کا طریقۂ کار ،حد ،مقدار تحریر کر کے غاصبین کےراستے مسدود کردیے اور زندہ لوگوں کو درس دیا کہ قبل از مرگ اپنی ’’وصیت‘‘تحریراً کسی کے پاس محفوظ کردیں تا کہ بعد میں تنازعہ نہ کھڑا ہو ،صفحہ ۳۵پر وارثین اور ان کے حصوں کو بیان کر کے بہت واضح طور پر مختلف اندیشوں کا خاتمہ فرمادیا ،صفحہ ۳۹پر بوڑھے والدین کا حصہ اور والدین کا حصہ نہ لینے کی شکل میں پیدا ہونے والی صورت حال کا حل پیش کردیا،صفحہ ۴۰پر میراث سے بیوہ کو محروم کرنا یا اس کو دیے گئے تحائف کی واپسی پر حدیث کے حوالے سے وعید بیان کر کے عوام کو سخت انداز میں متنبہ کیا وہیں ایک اہم معاملہ جس کی طرف توجہ نہیں جاتی کہ بیوہ کے مال سے شوہر کو محروم کرنا مناسب بات نہیں ہے ،صفحہ ۴۴ پر میراث تقسیم کرنے کے فوائد کا ذکر کر کے غاصبین یا ٹال مٹول کرنے والوں پر سخت لگام لگائی ہے ۔
صفحہ ۴۵پر میراث کی تقسیم میں تاخیر سے ہونے والے نقصانات کو پیش کر کے سماج کے عام مزاج پر زبردست ضرب لگائی ہے ،صفحہ ۴۸پر آج کا عمومی مسئلہ جو تنازعہ کا سبب بنتا ہے ’’مشترکہ آبائی مکان کیسے تقسیم کریں ‘‘ سے متعلق بہترین رہنمائی فرماکر اور اپنی حدو میں رہنے کا پیغام دے کر مصنف نے آسان انداز میں اس کا حل پیش کردیا،صفحہ ۵۵پر ’’یتیم بچوں کی میراث سے متعلق مسائل ‘‘ فی زمانہ پڑھے لکھے گھرانے بھی اس میں تساہلی کرتے ہیں ،کتاب میں قرآنی آیات اور فتوے کے ذریعے اس بات پر ابھار اگیاہے کہ ہم اس پر بھی سنجیدگی سے سوچیں اور عمل کریں ،صفحہ ۶۱پر ’’خواتین سے متعلق مسائل میراث‘‘ علاحدہ طور پربیان کر کے سماج میں موجود گندی ذہنیت پر قدغن لگانے کا مشورہ دیا اور اسے سراسر ظلم اور حرام قرار دیا ۔
صفحہ ۶۵پر ہبہ کے احکام ومسائل ،ہبہ کی تعریف اور طریقۂ کار پر گفتگو فرمائی ،صفحہ ۷۲پر متبنیٰ سے متعلق واضح رہنمائی کی ،صفحہ ۷۴پر آج کا اہم مسئلہ تقسیم سے پہلے رقم لے کر کاروبار کرنا ،پر تحریر فرماکر اس کی مختلف صورتیں بھی بیان کردی ،صفحہ ۷۶پر فی زمانہ سب سے سلگتا ہوامسئلہ ’’مشترکہ خاندانی اور کاروباری مسائل اور ان کا حل ‘‘ واقعی بہت حساس مسئلہ ہے ،مصنف محترم نے مفصل انداز میں اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں اور ان کا حل بیان کر کے واقعی ایک احسان عظیم کیا ہے ،صفحہ ۸۶ پر ’’للذکر مثل حظ الانثیین‘‘کی توجیہ بہت آسان انداز میں فرمادی اور جہاں عوام کی رہنمائی کی وہیں معترضین کو مدلل انداز میں جواب بھی دے دیا ،صفحہ ۸۹ پر دادا کی میراث سے پوتے کی محرومی پر لکھنا منصف کی ذہنی استعداد کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ میں عوام و خواص خصوصا اہل علم طبقہ اور معلمین و معلمات سے گزارش کرتا ہوں کہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں ، اس سے جہاں آپ کے علم میں قابل قدر اضافہ ہوگا وہیں مؤلف کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی !
*-*-*
0 تبصرے