Ticker

6/recent/ticker-posts

حفاظ کرام کو لقمہ لگنا کوئی عیب کی بات نہیں، لقمہ دینے کے اصول و آداب

 
تحریر :مفتی محمد عامر یاسین ملی
      گزشتہ دنوں جناب قاری زبیر اختر عثمانی صاحب نے ائمہ حرمین کی ایک آڈیو بھیجی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ نماز میں تلاوت کرتے ہوئے ائمہ حرمین سے بھی غلطی ہوتی رہتی ہے اور ان کو بھی لقمہ لگتا ہے جسے وہ پوری بشاشت سے قبول کرلیتے ہیں ۔ 
      اس آڈیو کے وائر ل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر کسی حافظ قرآن یا امام سے دوران نماز کوئی غلطی سرزد ہوجائے یا تراویح میں حافظ قرآن کوئی آیت بھول جائے اور اس کو لقمہ لینا پڑے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔اس لیے کہ نماز تراویح میں قرآن پاک پڑھنا محض فضل الٰہی کا نتیجہ ہے اور نسیان اور غلطی کا سرزد ہونا انسان کی بشری کمزوری ہے ،بعض حضرات اس کو بہت معیوب سمجھتے ہیں اور تراویح کے بعد حفاظ پر مختلف انداز میں طنز بھی کرتے ہیں مثلاً :آج حافظ صاحب نے سبق یاد نہیں کیا تھا یا آج شاید بہت مشکل پارہ تھا ،وغیرہ وغیرہ 
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض حفاظ کرام بھی لقمہ لینے کو اپنے لیے شرمندگی کا باعث تصور کرتے ہیں اور بعض حفاظ کو لقمہ دیا جائے تو وہ ناراض بھی ہوجاتے ہیں ۔لہذا نماز تراویح کی امامت کرنے والے حفاظ اور نماز پڑھنے والے مصلیان کی خدمت میں چند باتیں عرض ہیں:
(۱)لقمہ لگ جانا عیب کی بات نہیں اور لقمہ نہ لگنا فخر کی بات ہے،لہذا حفاظ کرام لقمہ دینےو الے کو اپنا معاون خیال کریں اور اس کے شکر گزار رہیں کہ لقمہ مل جانےکی بدولت قرآن کریم صحیح پڑھنا ممکن ہوا ا اور تکمیل ہوئی ۔
(۲)اگر کسی حافظ کو لقمہ لگ جائے تومصلیان کرام ہر گز اس کو شرمندہ نہ کریں ،بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تمام حفاظ کے لیے قرآن سنانا آسان فرمائے ۔
(۳)جو حضرات لقمہ دیتے ہیں وہ لقمہ دینے کے اصول وآداب سے واقفیت حاصل کریں ،بعض مرتبہ بے اصولی کے ساتھ لقمہ دینے سے بھی بد مزگی پیدا ہوتی ہے ۔(لقمہ دینے کے اصول وآداب مضمون کے اخیر میں ملاحظہ فرمائیں)
(۴)یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض حفاظ جن میں عصری تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں ،لقمہ دینے کے سلسلے میں بڑی شدت کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ بعض حضرات کو محض حفاظ کرام کو پریشان کرنے کے لیے ان کوآیت دہرانے کا موقعہ نہیں دیتے اورعجلت کے ساتھ لقمہ دیتے ہیں ۔یہ گناہ کی بات ہے اور بد اخلاقی کی علامت بھی!ایسے لوگوں کو اپنی اس نامناسب حرکت سے بعض آنا چاہیے ۔
اخیر میں لقمہ دینے کے اصول وآداب ملاحظہ فرمائیں 
    اگر امام سے قرآن پڑھنے میں بھول ہوجائے یا وہ غلط پڑھ لے تو سامع لقمہ دے سکتا ہے، لقمہ دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ امام مزید تشویش اور التباس میں نہ پڑ جائے، یعنی اگر امام خودآیت درست کر کے پڑھنے کی کوشش کررہا ہو تو پہلے اس کو موقع دیا جائے، لقمہ دینے میں عجلت نہ کی جائے، اگر امام پھر بھی نہ پڑھ سکے تو لقمہ دیا جائے؛ کیوں کہ مقتدی کے لیے لقمہ دینے کی اجازت ضرورت کی وجہ سے ہے، ورنہ مقتدی کا تلاوت کرنا عام حالات میں ناجائزہے۔
      اگرکسی حافظ قرآن کو سامع کی حیثیت سے مقررکیا گیا ہے تو و ہی لقمہ دے، کوئی اور شخص جلدی نہ کرے، البتہ اگر سامع نہ بتاسکے اور امام آگے تلاوت بھی جاری نہ رکھ سکے تو پھر کوئی اور شخص جو نماز میں شریک ہو وہ بھی لقمہ دے سکتا ہے۔ 
      اگر امام سے غلطی ہو اور سامع کے لقمہ نہ دے سکنے کی وجہ سے وہ تلاوت جاری رکھے اور غلطی کی وجہ سے معنی میں ایسا فساد نہ آئے جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوتی ہو اور پھر اگلی رکعت یا بعد کی کسی رکعت میں وہ آیت درست کرکے دُہرا لے تو تراویح میں ضرورۃً اس کی گنجائش ہے، البتہ اگر غلطی کی وجہ سے معنیٰ میں ایسا فساد آئے جس سے نماز فاسد ہوجائے تو سامع یا پھر مقتدیوں میں سے کسی حافظ کو چاہیے کہ وہ لقمہ دے دے، اگر ایسی غلطی کی تصحیح نماز میں نہیں کی گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ فوراًلقمہ کوئی ایک شخص دے اور اس طرح پڑھے کہ امام کو سمجھ میں آجائے۔ جو شخص نماز میں شریک نہ ہو وہ لقمہ نہ دے، اگر اس نے لقمہ دے دیا اور امام نے قبول کرلیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ *-*-*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے