Ticker

6/recent/ticker-posts

حضرت مولانا قاضی عبد الاحد ازہری کا وصال ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

حضرت مولانا قاضی عبدالاحد ازہری صاحب کی وفات 
بانی معہد ملت حضرت مولانا عبد الحمید نعمانی ؒ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد حنیف ملی ؒ کے بعد عظیم ترین سانحہ
تحریر: سوگوار محمد عامر یاسین ملی مالیگاؤں

      شہر عزیز مالیگاؤں کی پورے ملک میں ایک منفرد شناخت ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک باکمال علمی و ملی شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں ، لیکن کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جن کے حوالے سے خود یہ شہر جانا اور پہچانا جاتا ہے ، حضرت قاضی صاحب کا شمار بھی ایسی ہی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔ 
حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کیسی باکمال تھی، وہ علوم اسلامی کے کیسے ماہر شہسوار تھے ، دین وملت کے تئیں ان کی خدمات کتنی عظیم تھیں، اور ان کے ذریعے معہد ملت اور بالعموم ملت اسلامیہ ہندیہ کو کس قدر فیض پہنچا ؟ یہ ساری باتیں ہم لوگ جانتے ہیں اور اب مزید جانیں گے جب اہل قلم ان کی زندگی کے مختلف گوشوں اور کم و بیش چھ دہائیوں پر محیط ان کی دینی و ملی خدمات کو اجاگر کرکے ان سے اپنی دلی محبت اور الفت کا اظہار کریں گے ۔
     اس وقت مجھے بس اتنا عرض کرنا ہے کہ حضرت قاضی صاحب کے وصال پر نہ صرف ملی برادری بلکہ شہر مالیگاؤں سمیت پورے ملک کی علمی و دینی فضا سوگوار ہے ۔ اس لئے کہ یہ کسی ایک شخصیت کا وصال نہیں ہے بلکہ مادر علمی معہد ملت کے سرپرست اعلی، دارالقضاء مالیگاؤں کے قاضی شریعت، آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے رکن تاسیسی، آل انڈیا فقہ اکیڈمی کے نائب صدر ، ہزاروں ملی فضلاء کے استاذ اور اہلیان شہر مالیگاؤں کے بزرگ کا وصال ہے۔ قاضی صاحب ؒ کو کسی بھی لحاظ سے جاننے والے ہر ایک شخص کو ان کے وصال کا تو دکھ ہے ہی، ساتھ ہی یہ فکر بھی ہے کہ اب اخلاص کا ایسا پیکر، علم کا ایسا پہاڑ، عمل کا ایسا شاندار نمونہ ،اور پوری زندگی دین و ملت کی سرفرازی کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے والی ایسی شخصیت
 اب کہاں پیدا ہوگی اور کب ملے گی ؟ خود قاضی صاحب کے جسد خاکی سے یہ سوال کرلیا جائے تو یہی جواب آئے گا کہ 
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں 
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں 

    بہرحال حضرت قاضی صاحب تو اپنی حیات مستعار انتہائی شاندار انداز میں گزار کر بڑے مبارک مہینے میں دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن ان کے رخصت ہوتے ہی یہ سوالات بھی پیدا ہوگئے ہیں جن پر ہر ایک دینی و ملی خدمت گار کو غور کرنا چاہیے اور ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ 
     حضرت قاضی صاحب کے وفات پاجانے پر پوری ملی برادری کی کیفیت اس معصوم اور یتیم بچے کی طرح ہوگئی ہے جس کے والد کے انتقال پر ہر ایک رشتے دار اور پڑوسی آکر تسلی دیتے ہوئے اس سے کہتا ہے کہ بیٹا ! اب سے مجھے اپنا باپ سمجھنا، لیکن بیٹے کو یہ سوچ کر کسی طرح چین نہیں آتا کہ بھلا حقیقی باپ کا بھی کوئی بدل ہوا کرتا ہے ؟
   یقین جانیے! اگر معہد ملت کے درودیوار کو زبان دیدی جائے تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ بانی معہد ملت حضرت مولانا عبد الحمید نعمانی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد حنیف ملی رحمۃ اللہ علیھما کے وصال کے بعد آج ہم ایک بار پھر یتیم ہوگئے ہیں ۔
لبید نے غالبا ایسے ہی موقع پر یہ شعر کہا تھا: 
    ذھب الذین یعاش فی اکنافھم         
   وبقیت فی خلفٍ کجلد الاجرب
ترجمہ: وہ لوگ رخصت ہو گئے جن کے زیرِ سایہ زندگی بسر ہوتی تھی اور میں نالائق لوگوں میں پڑا رہ گیا ہوں جیسا کہ خارشی اونٹ تنہا کھڑا ہو تا ہے۔
     خدا تعالیٰ سے التجا ہے کہ وہ حضرت قاضی صاحب کی جملہ خدمات کو قبول کرکے ان کی کامل مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے کہ اسوقت ملت اسلامیہ ہندیہ کو ایسی عظیم شخصیات کی سخت ضرورت ہے ۔اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ
          قارئین سے حضرت قاضی صاحب کے لیے دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کی گزارش کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے