عیدالفطر اہل ایمان کے لیےاللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہےاور خوشی ومسرت کے اظہارکا دن ہے،چنانچہ اس انعام کےملنے پر سب سےپہلے دو رکعت بطور شکرانہ ادا کی جاتی ہے ،جس کو نماز عید الفطر کہتے ہیں ۔یہی دراصل عید کی روح ہے ،جس کے ذریعے اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے ،اس کے علاوہ نہانا دھونا خوشبو استعمال کرنا اور نئے کپڑے پہننا سب ضمنی چیزیں ہیں ۔دیگر قومیں خوشی کے موقع پر ایسی مست ہوجاتی ہیں کہ انہیں اپنے آپ کا ہوش ہی نہیں رہتا ،چنانچہ وہ لہو ولعب ،ناچ گانے ،شراب نوشی اور ہر طرح کے گناہ اور نافرمانی کے کاموں میں مبتلا ہوکر اپنی خوشیوں کا اظہار کرتی ہیں ۔اس کے برعکس ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ خوشی یا غمی ہر موقع پر اپنے رب کے حکموں کا پابند رہتا ہے ،وہ نہ خوشی میں اتنا سرشار ہوجاتا ہے کہ شریعت کی پابندیوں سے خود کو آزاد کرلے اور نہ دکھ اور غم کے موقع پر اتنا پریشان ہوجاتا ہے کہ اللہ کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوجائے۔بقول شاعر ؎
ظفر ؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا،وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی ،جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب و نرالاہے اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے،جب اس کو خوشی ملتی ہے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے،اور جب کوئی رنج پہنچتا ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے۔(مسلم شریف)
قارئین !ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ خوشی اور غمی کے مواقع پر ہم شکر اور صبر کی راہ اختیار کریں،عید الفطر بھی ہمارے لیے انتہائی خوشی ومسرت کا دن ہے ،لہذا ہمیں عید کےدن بھی شرعی تعلیمات کی روشنی میں رہ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔ اسی طرح عید کے بعد چھٹیوں کے ایام ہم اس طرح گزاریں کہ ہمارے عمل اور طریقے سے نہ خالق ناراض ہو اور نہ مخلوق کو تکلیف پہنچے،بہت سارے نوجوان نماز عید الفطر کی ادائیگی کے لیےجب عید گاہ جاتے ہیں تو برادران وطن کے علاقوں سے گزرتے ہوئے ایسی نا مناسب حرکتیں کرتے ہیں جن کی وجہ سے اسلام کی شبیہ متاثر ہوتی ہے۔مثلاً زور زور سے باتیں اور ہنسی مذاق کرنا ،تیز رفتاری کے ساتھ سواری چلانا،برادران وطن کو دیکھ کر نعرہ لگانا یا کسی طرح کا طنزیہ جملہ کہنا ۔اسی طرح بعض شادی شدہ نوجوان جوڑے جو سیر وتفریح کے لیے سیاحتی مقامات اور دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں ،وہ بھی وہاں ایسی نامناسب اور نازیبا حرکتیں کرتے ہیں جو شرم وحیاء کے خلاف ہوتی ہیںاور وہاں کے مقامی لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہیں،بہت ساری مسلمان خواتین بے پر دگی کے ساتھ تفریحی مقامات اور بازاروںمیں گھومتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں۔یہ سارے اعمال جہاں نیکیوں کوبرباد کرنے اور گناہوں کو لازم کرنے والے ہیں ،وہیں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بھی ہیں،لہذا ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی نامناسب حرکتوں سے گریز کریں۔والدین اور سرپرستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور گھر کی خواتین کو پردے کے اہتمام کی تلقین کریںاور ان کو علماء کرام کی یہ نصیحت بھری باتیں بتائیں کہ
(1) اصل عید اس کی نہیں جو محض نئے کپڑے پہن لے، بلکہ عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید یعنی نافرمانی سے بچے۔
(2) اصل عید اس کی نہیں جو عود کی خوشبو استعمال کرے ،بلکہ عید تو اس کے لیے ہے جو سچی تو بہ کرلے۔
(3)اصل عید اس کی نہیں جو زیب وزینت اختیار کرے، عید تو اس کی ہے جو آخرت کے لیے تقوی کا توشہ تیار کرے۔
(4)اصل عید اس کی نہیں جو سواریوں پر سوار ہو ،بلکہ عید اس کی ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے۔
(5)اصل عید اس کی نہیں جو آرام دہ گدے اور قالین بچھالے، بلکہ عید اس کی ہے جو اپنے لیے پل صراط سے گزرنے کا انتظام کرلے۔
قارئین! عید کا چاند نظر آنے کے بعد ہمیں یہ نہیں بھولناچاہیے کہ رمضان المبارک گزر جانے کے باوجود ہم پر نمازیں بدستور فرض ہیں اورپورا سال گناہوں سے بچنا لازم ہے۔لہذا رمضان المبارک میں عبادات کے اہتمام اور گناہوں سے اجتناب کا جو مزاج اور ماحول بنا ہے ہم اس کو سال بھر باقی رکھیں۔بہت سارے مسلمان عید الفطر کا چاند آتے ہی گویا اپنے آپ کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد سمجھ لیتے ہیں اور پھر پہلے ہی طرح آزاد اور من چاہی زندگی گزارنے لگتے ہیں ۔وہ نہ فرض نمازوں کے لیے مسجد میں حاضر ہوتے ہیں اور نہ دیگر عبادات کا اہتمام کرتے ہیں۔گناہوں بطور خاص نشہ اور فلم بینی سے رمضان میںبچنے والے دوبارہ انہی گناہوں میں ملوث ہوجاتے ہیں ۔برادران وطن مسلمانوں کا یہ طرز عمل دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ شاید اسلام صرف رمضان کے لیے ہے۔ جناب اشفاق احمد صاحب کی ڈائری سے ماخوذ ایک مختصر لیکن پر اثر اور فکر انگیز واقعہ لکھ کر اپنی تحریر مکمل کرتا ہوں ،وہ لکھتے ہیں کہ
’’ میوا(Miwa)نامی ایک جاپانی لڑکی تھی آفس میں ساتھ کام کرتی تھی ،رمضان شروع ہوا تو کہنے لگی یہ جو تم رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو ،اس سے کیا ملتا ہے؟میں نے اسے بتایا کہ روزہ ایک عبادت ہے ،اور یہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے ،بلکہ روزے کی حالت میں جھوٹ سے بچنا ایمانداری سے اپنا کام کرنا پورا تولنا انصاف کرناوغیرہ ،ان تمام برے کاموں سے بھی بچنا ہوتا ہے ۔وہ لڑکی بڑی سنجیدگی سے بولی کہ آپ کے تو مزے ہیں جی!ہمیں توسارا سال ان کاموں سے بچنا ہوتا ہے اور آپ کو بس ایک مہینہ !!!‘‘
0 تبصرے