Ticker

6/recent/ticker-posts

اجلاس برائے تفہیم شریعت

معہد ملت میں تفہیم شریعت کا اہم پروگرام
علماء کرام ،معلمات اور عصری تعلیم یافتہ افراد شرکت کریں!

تحریر: مفتی محمد عامریاسین ملی 

         اللہ رب العزت کی ایک صفت عدل ہے، اللہ پاک عادل اور منصف ہے ،اور ہر طرح کی ظلم وزیادتی سے پاک ہے،قرآن کریم میں ہے : إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ بے شک اللہ پاک کسی پرذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔دوسری جگہ ارشاد ہے:وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِاور آپ کا رب بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔اللہ پاک نے اپنے بندوں کو بھی اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ عدل وانصاف سے کام لیں اور ظلم وزیادتی سے بچیں۔ چونکہ اللہ پاک عادل ہے ،اسی لیے اس کا بنایا ہوا نظام کائنات اور اس کی اتاری ہوئی شریعت بھی عدل وانصاف پر قائم ہے۔ شریعت کا کوئی حکم بھی ایسا نہیں ہے جس پر عمل کرنے کے نتیجے میں کسی کے حق میں کسی طرح کی زیادتی اور نا انصافی ہو۔ شریعت اسلامی کا یہ حسن اور امتیاز ہے کہ اس کا ایک ایک حکم اور قانون انتہائی معتدل،متواضع اور عدل وانصاف پر مبنی ہے،اسی کے ساتھ ساتھ شریعت کے احکام وقوانین میں بہت ساری حکمتیں ،مصلحتیں اور فوائد پوشیدہ ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری عقل وفہم کی رسائی ان مصلحتوں اور فوائد تک نہ ہوسکے۔
         شریعت کے بعض احکام بظاہر سخت نظر آتے ہیں ،اسی طرح بعض کم علم ،کوتاہ نظر اور متعصب افراد شریعت کے بعض احکام پر اعتراض کرتے ہیں اور انہیں ظلم وزیادتی پر مبنی قرار دیتے ہیں ۔مثلاً 
(۱)اسلام کا نظام طلاق ،اس کے متعلق یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ طلاق عورت پر ظلم ہے اور یہ کہ صرف مرد کو طلاق کا اختیار کیوں دیا گیا ہے ؟
(۲)اسلام کا نظام میراث،اس کے سلسلے میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ دو بیٹیوں کے برابر ایک بیٹے کو حصہ دینا مساوات کے منافی ہے،اسی طرح دادا کی میراث سے یتیم پوتے کی محرومی ظلم ہے ۔
(۳)اسلام میں ایک سے زائد شادی کا نظام، اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ عورتوں کے حق میں ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام ہے،تعجب کی بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے لیو ان ریلیشن شپ پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ،جس کے تحت ایک مرد بغیر کسی معاہدے کے ایک خاتون کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور جب سمجھ میں آئے اس کو تنہا اور بے سہارا چھوڑ جاتا ہے اور پھر کسی اور خاتون کے ساتھ نیا رشتہ قائم کرلیتا ہے ۔
       اس طرح کے اور بھی شرعی احکام اور قوانین ہیں جن پر مستشرقین اور دشمنان دین اکثر وبیشتر نت نئے انداز میں اشکال اور اعتراض کر کے غیر مسلم حضرات اور خود مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں،تاکہ غیر مسلم دین سے قریب نہ آسکیں اور مسلمان دین سے دور ہوجائیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سارے پڑھے لکھے مسلمان ان کی اس ناپاک سازش کا شکار ہوجاتے ہیں ۔بعض لوگ اپنے ان اشکالات اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے علماء کرام سے رابطہ کرتے ہیں ، اسی طرح خواتین اسلام معلمات سے رجوع کرتی ہیں۔ چنانچہ جو اہل علم اسلامی احکام اور قوانین کے حقائق ،باریکیوں اور مصلحتوں سے واقف ہوتے ہیں وہ آنے والوں کے اعتراضات کا اطمینان بخش جواب دیتے ہیں،لیکن احکام شریعت کا گہرا علم نہیں رکھتے اور شرعی احکام کی حکمتوں سے واقف نہیں ہوتے وہ آنے والوں کے اشکالات کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ،بلکہ بسا اوقات ناقص اور مبہم جواب دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اعتراضات اور اشکالات مزید پختہ ہوجاتے ہیں ۔
موجودہ دور میں جب کہ موبائل اور انٹر نیٹ سے دنیا کی بڑی آبادی جڑ چکی ہے اور اس کے ذریعے منٹوں میں اپنی باتوں کو پھیلانا ممکن ہے، بہت سارے مخالفین دن رات اسلام کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں مصروف ہیں، بہت سارے مسلمان سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے گمراہ لوگوں کے بیانات سنتے ہیں اور مضامین پڑھتے ہیں اور متأثر بھی ہوتے ہیں ،ان حالات میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ علماء کرام ،مصلحین امت ، داعیان دین اور معلمات احکام شریعت بطور خاص ان اسلامی قوانین اور ضابطوں کی باریکیوں اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابا ت سے واقفیت حاصل کریں، جن کے بارے میں عام مسلمانوں اور عصری تعلیم یافتہ طبقے کے ذہنوں میں مختلف شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کا ایک خصوصی شعبہ تفہیم شریعت کے عنوان سے قائم ہے ،جس کے ذریعے ملک بھر میں ،علماء کرام ،معلمات ،ڈاکٹرز ، ٹیچرز اور وکلاء کے لیے تربیتی ورکشاپ اور پروگرام رکھے جاتے ہیں اور مختلف شرعی احکام کی حقیقتوں ، مصلحتوں اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات سے ان کو واقف کرایا جاتا ہے ۔ خوشی کی بات ہے کہ شہر مالیگاؤں میں بھی تفہیم شریعت کا یہ پروگرام مورخہ ۲۸؍فروری بروز منگل صبح نو بجے مسجد نعمانی معہد ملت میں منعقد ہورہا ہے،جس میں ملک کے نامور عالم دین فقیہ العصر حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب اور دیگر علماء کرام کی خصوصی شرکت ہوگی۔ لہذا علماء کرام ،مفتیان عظام ، مدارس نسواں کی معلمات، خواتین کے دینی اجتماعات اور مجالس درس قرآن میں خطاب کرنے والی معلمات اسی طرح مدارس اسلامیہ کے تازہ فارغین اور فارغات کویہ موقع غنیمت جان کر اس پروگرام میں ضرور شرکت کرنی چاہیے تا کہ وہ احکام شریعت کے حسن،جامعیت ، عدل واعتدال اور مصلحتوں سے اچھی طرح واقف ہو کر عام مسلمانوں کو بھی واقف کراسکیں۔کوئی شبہ نہیں کہ یہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے اور مسلمانوں کے ایمان و عقائد کے تحفظ کی ایک بڑی اور اہم خدمت بھی!
٭…٭…٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے