Ticker

6/recent/ticker-posts

یوم اساتذہ


یوم اساتذہ کی مناسبت سے ایک تحریر :
 ان چراغوں میں ہے لہو کس کا

از:مفتی محمد عامر یاسین ملی 9028393682

       پانچ ستمبر کا دن ملکی سطح پر یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن جہاں اساتذہ کرام کے مقام ا ور ان کی گرانقدر علمی خدمات کی اہمیت اور عظمت کے اعتراف کی غرض سے منایا جاتا ہے وہیں یہ دن خود اساتذہ کرام کے لئے بھی اپنا جائزہ لینے اور اپنے طریقہ تدریس کا محاسبہ کرنے کا متقاضی ہے۔ اسی احساس کے پیش نظر یہ تحریر لکھی گئی ہے، اس امید کے ساتھ کہ اسے تنقید کے بجائے گزارش کے طور پر پڑھا جائے گا۔ ( مضمون نگار)
     ایک استاذ نے کلاس کو متحرک کرنے ، جوش اور ولولہ سے معمور کرنے کے لئے کلاس میں ایک طالب علم سے پوچھا : آپ کی عمر کتنی ہے؟
طالب علم نے جواب دیا: جناب انیس سال
استادنے پھر سوال کیا : محمد قاسم نے جب سندھ کو فتح کیا تھا اس کی عمر کتنی تھی؟
طالب علم: سترہ سال
استاذ: سکندراعظم جب یونان کابادشاہ بناتواس کی عمرکتنی تھی؟
طالب علم: تقریبا ً انیس سال
استاذ :رسول اللہ ﷺ نے جھوٹے نبی مسلیمہ بن کذاب کی سرکوبی کے لئے جو لشکر ترتیب دیاتھا اس کے سپہ سالار اسامہ بن زید کی عمر کیا تھی؟
طالب علم:سترہ یا انیس سال
استاذ نے طنزیہ نظروں سے کلاس کی جانب دیکھااور سوال کیا:
تمہاری عمر کتنی ہے اور تم نے اب تک کیا کیا ہے؟
طالب علم:نے بڑے اعتماد سے جواب دیا: استاذ محترم محمد بن قاسم کی عسکری تربیت حجاج بن یوسف جیسے سپہ سالارنے کی تھی ، سکندراعظم ارسطو فلسفی کا شاگرد تھااوراسامہ بن زید نے خیر البشر حضرت محمد ﷺ کے زیرسایہ تربیت پائی تھی۔
محترم ! مجھے بھی اچھے استاذ اچھی تربیت دے کر اچھا کردار لے لیں۔درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔آپ بھی اچھے استاذ بننے کی فکر کیجئے۔
بلا شبہ استاذ قوم کا معمار ہوتا ہے،جس کے ہاتھ میں طلباء کا مستقبل ہوتا ہے،وہ چاہے تو اپنی محنت شفقت اور حسن تدبیر کے ذریعے طلباء کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر انہیں ایک عظیم انسان بنادے،اور اگر چاہے تو تنقید حوصلہ شکنی اور برے سلوک کے ذریعے انہیں تعلیم وتربیت سے محروم کرکے معاشرے کاجاہل اورناکام انسان بنا دے ہر حال میں طلباء استاذ کی شخصیت اور اس کی خوبیوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ؂
ان چراغوں میں ہے لہو کس کا
روشنی خود بخود بتاد ے گی
موجودہ دور میں جس قدر تعلیم کی روشنی عام ہوتی جارہی ہے، اسی تیزی سے جہالت و بد اخلاقی میں بھی اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے،کل تک جو برے کام اور جرائم نرے جاہل اور ان پڑھ افراد انجام دیاکرتے تھے وہی سارے کام اب علم کے زیور سے آراستہ افراد بڑے خوبصورت انداز میں انجام دے رہے ہیں، اس صورت حال کو دیکھ کر معاشر ے کے بزرگ حضرات یہ کہنے پر مجبورہیں ؎
اس دورکی تعلیم کامعیارعجب ہے
تعلیم تو آتی ہے جہالت نہیں جاتی
   جب تعلیم یافتہ طبقہ کسی جرم اور گناہ کا ارتکاب کرتاہے تو عموما ًلوگ اسے نظام تعلیم کی خامیوں کانتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعلیم حاصل کرنے سے جاہل رہ جانا بہتر ہے۔بعض لوگوں کی جانب سے یہ بات بھی سننے میں آتی ہے کہ قصور تعلیم کا نہیں بلکہ نظام تعلیم کی خامیوں کا ہے،پھر سب سے زیادہ جس طبقے کو قصور وار قرار دیاجاتا ہے وہ طلباء کا طبقہ ہے۔جس کے بارے میں یہ جملے اکثر سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں کہ ’’اب طلباء پہلے جیسے نہیں رہے‘‘،یعنی طلب علم کے لئے شوق اور لگن ، اساتذۂ کرام کے تئیں ادب و احترام کے وہ جذبات جو پہلے ہوا کرتے تھے اب باقی نہیں رہے۔
     یہ بات بلا شبہ درست ہے لیکن یہ سکے کا ایک پہلو ہے،دوسراپہلو یہ ہے کہ طلباء کے تئیں ہمدردی وشفقت ،حسن سلوک و مہربانی اور اپنا علم ،اپنے طلباء میں منتقل کرنے کے لئے ہر طرح کہ قربانی دینے کے وہ جذبات بھی اب عام طریقے پر نظر نہیں آتے جو کبھی اساتذہ کرام کاخاصہ ہواکرتے تھے، ان کی جگہ اب خودغرضی و تن آسانی ،بد زبانی و سخت گوئی ،حوصلہ شکنی اور تنقید و استہزا نے لے لی ہے، معاشرے میں ایسے متعدد افراد ہمیں مل جائیں گے جو تمام تراسباب و مواقع کے ہوتے ہوئے بھی محض اس وجہ سے علم حاصل نہ کرسکے کہ جب انہوں نے راہِ علم میں ڈگمگاتے ہوئے پہلاقدم رکھاتوکسی مشفق استاذ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر انہیں تھامنے اور سہارا دینے کی زحمت نہیں کی۔اسی طرح بعض لوگ آدھی یا آدھی سے زائد تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی محض اس وجہ سے منزل مقصود تک نہ پہونچ سکے کہ استاذ نے کسی غلطی پر انہیں ایسی سخت سزا دی جو انہیں ہمیشہ کے لئے جاہل اور ان پڑھ بنے رہنے پر مجبور کر گئی۔یا پھر کسی استاذ نے اپنی زبان سے تنقید کا ایسا زہریلا تیز چھوڑاجو طالب علم کے دل میں ہمیشہ کے لئے پیوست ہوگیا، اور اسے مدرس اور درس گاہ دونوں سے متنفر کرنے کا سبب بن گیا۔
ان سطروں کامقصد اساتذہ کرام کے محترم گروہ اوران کی جماعت پر تنقید ہرگز نہیں، مقصد ان اسباب و وجوہات کی نشاندہی ہے جو بعض معلمین و ٹیچرس میں پائی جاتی ہیں،اور پوری جماعت کی بدنامی کا سبب بنتی ہیں۔ظاہر ہے کہ ان تمام کمیوں کے ہوتے ہوئے طلباء کے گروہ سے علامہ انور شاہ کشمیری، محمد بن قاسم اور سکندر اعظم و مفتی محمود حسن دیوبندی جیسے عبقری اور مثالی طلباء کی توقع رکھنا ببو ل کے درخت سے آم حاصل کرنے کی چاہت رکھنے کے مترادف ہو گا ؎
نہ اہل سے وفا کی نہ رکھیو کبھی امید
گنے کارس نصیب کہاں سوکھے بانس کو
حضرات اساتذہ کرام کی عظمت کو سلام اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی شعبہ درس و تدریس سے وابستہ تمام معلمین و معلمات کو اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے اور ان سے علم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو ان کے لئے دونوں جہاں میں نیک نامی کا ذریعہ بنائے ۔ آمین
                                 *****

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے