اتی کرمن اور راستوں پر کھڑی بے ترتیب سواریاں بنیادی وجہ
از: محمد عامر یاسین ملی
جن کے دل پتھر کے ہوں ان پر ہوگا کیا اثر
میری یہ دل کی صدا ہے درد مندوں کے لیے
یہ افسوسناک خبر گردش کررہی ہے کہ کل( منگل) دوپہر میں ساڑھے تین بجے آگرہ روڈ پر سہارا ہاسپیٹل کے پاس بیلباغ کے ساکن ایک 16 سال کے یتیم بچے عبداللہ انیس احمد کی سڑک حادثہ میں دردناک موت واقع ہوگئی۔ غلط سمت سے آنے والی ایک بڑی سواری نے اس معصوم بچے کو کچل دیا،جائے حادثہ پر پہنچنے والے اور بچے کو سول ہاسپیٹل لے جانے والے شفیق اینٹی کرپشن نے اس حادثہ کی بنیادی وجہ من مانے طریقہ سے راستہ چلنا، اتی کرمن اور بے ترتیب سواریوں کی وجہ سے راستوں کا تنگ ہونا بتایا ہے۔ انہوں نے اپیل کی ہے کہ شہریان اتی کرمن کرنے اور کسی بھی جگہ بے ڈھنگے انداز میں سواری لگانے سے گریز کریں تاکہ اس طرح کے حادثات سے بچاجاسکے۔
یقینا یہ ایک افسوسناک حادثہ ہے جس سے متاثر ہو کر انہوں نے یہ گزارش کی ہے، لیکن انہیں کون بتائے کہ فریاد درد مند دلوں پر اثر کرتی ہے، بے حس انسانوں پر نہیں!
ابھی گزشتہ ماہ کی بات ہے، مالیگاؤں کی تقریبا 200
مساجد میں ہمارے معزز علماء کرام اور ائمہ مساجد نے نماز جمعہ سے قبل راستے کے حقوق اور اتی کرمن کے گناہ کے عنوان پر خطاب کیا تھا اور بتایا کہ راستہ پر ناجائز قبضہ کتنا سنگین گناہ ہے، ہم نے تو اس بیان کو نہ صرف یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کروایا بلکہ اسے تحریری شکل میں شامنامہ میں شائع کروایا اور سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا لیکن
بے حسی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
انسانوں کے سینوں میں گویا پتھر کے دل رکھے ہوئے ہیں، جن پر کوئی بات اثر نہیں کرتی ۔ اتی کرمن اور راستوں پر ناجائز قبضہ ایک وبائی بیماری کی طرح پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، جس کا ہر کوئی شکار ہے۔ یہاں کے راستے تو بدتر ہیں ہی، لیکن راستے پر بے ڈھنگے انداز میں چلنے والے ، کسی بھی جگہ اپنی سواری لگانے والے اور مکان اور دکان کے آگے اتی کرمن کرنے والے راستوں سے زیادہ بدتر ہیں۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ ایسے لوگوں کی اکثریت مسلمان ہے، لیکن وہ مسلمان نہیں، حدیث میں جس کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری ومسلم )
قارئین! ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں اس مذہب کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے پیروکاروں کو اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ وہ اس طرح زندگی گزاریں کہ ان کی ذات سے کسی دوسرے انسان (مسلم یا غیر مسلم) کو تکلیف نہ پہونچے ۔
تمام عمر اسی احتیاط میں گزرے
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ہم دم بھرتے ہیں، ان کی سیرت طیبہ اسی بات کی تعلیم دیتی ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت اس بات کی بھرپور کوشش کرے کہ اس کی ذات سے کسی بھی مسلمان بلکہ عام انسان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کو نقصان نہ پہونچے خواہ وہ گھر میں ہو یا گھر کے باہر، بطور خاص راستہ چلتے ہوئے اس بات کا خیال رکھے کہ اس کی سواری سے راہ گیروں کو تکلیف نہ پہونچے ۔
اسلام نے راستہ چلنے کے متعلق بڑی ہی اہم ہدایات اپنے پیروکاروں کو دی ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل قسم کے لوگوں سے ان کا سامنا ہوتا ہے تو سلام کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔(سورہ فرقان)اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔
ان دونوں آیات میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ مسلمان راہ چلتے ہوئے اعتدال کو پیش نظر رکھیں ، ان کی رفتار نہ اتنی زیادہ ہو کہ لوگ تماشہ دیکھیں اور نہ اتنی سست ہو کہ لوگوں کو یہ خیال ہو کہ کوئی بیمار راستہ چل رہا ہے ۔
راہ چلتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسی جگہ اپنی سواری نہ روکی جائے جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو دشواری پیش آئے۔ ہمارے شہر کا یہ المیہ ہے کہ یہاں لوگ راہ چلتے ہوئے اسلامی ہدایات اور ٹریفک قوانین کا عموما پاس و لحاظ نہیں رکھتے ، ہر شخص اپنے حساب سے راستہ طے کرتا ہے،بطور خاص ٹھیلہ گاڑی اور رکشہ چلانے والے حضرات کسی بھی جگہ اپنی سواری کھڑی کردیتے ہیں ، اسی طرح بازاروں میں لوگ بے ترتیب انداز میں اپنی سواریاں کھڑی کر کے خرید و فروخت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دینی پروگراموں بلکہ مسجدوں میں عبادت کے لئے آنے والے دین دار افراد بھی بے ترتیب اور بے ڈھنگے انداز میں سڑکوں پر یا کسی بھی شخص کی دکان اور مکان کے سامنے اپنی سواریاں لگادیتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو حد درجہ تکلیف کا سامنا ہوتا ہے ۔ لیکن بے حسی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے،سواری لگانے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان کو تکلیف دینا حرام ہے اور راہ چلتے ہوئے ٹھہر جانا، یا راستے پر اپنی سواری لگا کر قبضہ کرلینا یہ دوسروں کو تکلیف دینا ہی ہے ۔ یہ وہ گناہ ہے کہ جب تک بندے معاف نہ کردیں اللہ کی بارگاہ سے بھی معافی نہیں مل سکتی۔
یہ مزاج بھی بالکل عام ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ راستوں پر بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں بلکہ ہوٹلوں اور چوراہوں پر دیررات تک کرسیاں لگاکر گپ شپ میں مشغول رہتے ہیں۔جس کی وجہ سے وسیع اور کشادہ راستے بھی انتہائی تنگ ہوجاتے ہیں۔ یہ اس قوم کا حال ہے جس کو راستے کے حقوق بتائے گئے ہیں اور راہ چلنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے، لیکن صراط مستقیم پر چلنے اور دوسروں کو چلانے کی ذمہ دار قوم دنیا کے راستوں پر سلیقہ سے چلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بقول شاعر
راہ خود بھول گئے راہ دکھانے والے
کیسے پھر ساتھ چلیں گے یہ زمانے والے
احادیث میں اس بات کی بھی تاکید کی گئی ہے کہ راستے پر اس طرح نہ بیٹھاجائے کہ راستہ تنگ ہوجائے اور راہ گیروں کو تکلیف ہو، نگاہ نیچی رکھی جائے ، سلام کا جواب دیاجائے ، بھولے بھٹکوں کو راستہ بتایاجائے، مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی جائے،بھلی باتوں کا حکم دیاجائے اور بری باتوں سے دوسروں کو روکا جائے۔ یہ راستے کے حقوق ہیں، غور کرنا چاہئے کہ ہم ان حقوق کی ادائیگی کا کتنا اہتمام کرتے ہیں؟
یاد رکھیں! اگر ہماری ذات سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے، اور کسی کو جانی یا مالی نقصان پہنچتا ہے تو کل قیامت کے دن خدا کی بارگاہ میں اس کا ہاتھ ہوگا اور تکلیف دینے والے کا دامن ، اور خدا بہت انصاف کرنے والا ہے ! اتی کرمن کرنے، بے ترتیب سواری لگانے والے اور من مانے انداز میں چلنے والے اس بات کو جتنا جلد سمجھ لیں اتنا بہتر ہے ۔
ہے پیش نظر اصل میں اصلاح مفاسد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا
خدا سب کو نیک ہدایت دے، ہمارے شہر پر رحم فرمائے اور ہم سب کی ناگہانی حادثات سے حفاظت فرمائے۔آمین
٭…٭…٭
1 تبصرے
ماشاءالله
جواب دیںحذف کریں