مثالی ازدواجی زندگی کے سنہرے اصول
از: مفتی محمد عامر یاسین ملی مالیگاؤں
8446393682
نکاح تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی مشترکہ سنت ہے ، نسل انسانی کے آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے اور مرد و عورت کی عزت و عصمت کی حفاظت کا ضامن ہے ۔ نکاح کے ذریعہ زوجین کو ذہنی سکون اور قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے اور گناہ سے بچنے میں مدد ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی نکاح کیا اور اپنی امت کو بھی نکاح کی ترغیب دی اور بے نکاحی زندگی کو ناپسند فرمایا۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۲۱ (سورہ روم)
اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔
اس آیت کریمہ پر غور کیجئے اور اس کی حقانیت کو کھلی آنکھوں سے دیکھئے کہ ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح ہوتے ہی دو اجنبی مردو عورت کے دلوں میں ایک دوسرے کی کیسی الفت اور محبت پیدا ہوجاتی ہے اور ان کی عام زندگی کیسی خوشگوار ازدواجی زندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ البتہ اس کیلئے لازم ہے کہ ازدواجی زندگی کو ان ہدایات و تعلیمات کے مطابق بسر کیا جائے جو نکاح سے متعلق قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں ۔
خوشگوارازدواجی زندگی کے رہنما اصول !
ہر انسان کو اللہ پاک نے مختلف خوبیوں سے نوازا ہے، اسی طرح ہر انسان میں عیب اور خامیاں بھی پائی جاتی ہیں ۔جب نکاح کے بعد شوہر اور بیوی اکٹھا ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کی خوبیاں اور خامیاں سامنے آتی ہیں ۔ ازدواجی زندگی کو خوشگواربنانےکاپہلا اصول یہ ہے کہ زوجین ایک دوسرے کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں اور خدا کا شکر ادا کریں اور ایک دوسرے کی خامیوں سے صرف نظر کریں ، اورمناسب انداز میں اصلاح کی کوشش کریں۔
قر آن کریم میں مردوں سے کہا گیاہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۚ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَکْرَہُوْا شَـیْــــًٔـا وَّیَجْعَلَ اللہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا’’ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو،گرچہ تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُرا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ساری بھلائی رکھ دے ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے اس لیے کہ اگر بیوی کی کوئی عادت اسے ناپسند ہو گی تودوسری پسندیدہ بھی ہوگی۔(مسلم)
بیوی میں کسی نہ کسی پہلو سے کوئی کمزوری ضرور ہوگی،اب اگر شوہر کسی عیب کو دیکھتے ہی اس کی طرف سے نگاہیں پھیر لے اور دل میلا کرلے تو پھر کسی خاندان میں گھریلو زندگی خوشگوار نہیں ہوسکے گی ۔ لہذا آدمی درگزر سے کام لے اور خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے عورت کے ساتھ خوش دلی سے نباہ کرنے کی کوشش کرے ۔ہوسکتا ہے کہ خدا اس عورت کے واسطے سے مرد کو کچھ ایسی بھلائیوں سے نوازے، جن تک مرد کی کوتاہ نظر نہ پہنچ رہی ہو ۔ مثلاََ عورت میں دین و ایمان اور سیرت و اخلاق کی کچھ ایسی خوبیاں ہوں ، جن کے باعث وہ پورے خاندان کے لئے رحمت ثابت ہو یا اس کی ذات سے کوئی ایسی نیک و صالح اولاد وجود میں آئے، جو ایک عالم کو فائدہ پہنچائے اور رہتی زندگی تک کے لئے باپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنے یا عورت مرد کی اصلاح حال کا ذریعہ بنے اور اس کو جنت کے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہو یا پھر اس کی قسمت سے دنیا میں خدا اس مرد کو کشادہ روزی اور خوش حالی سے نوازے ۔ بہر حال عورت کے کسی ظاہری عیب کو دیکھ کر بے صبری کے ساتھ ازدواجی تعلق کو برباد نہیں کرنا چاہئے بلکہ حکیمانہ طرز عمل سے دھیرے دھیرے گھر کی فضا کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی کوشش کرنا چاہئے اور صبر وشکر کا مظاہرہ کرناچاہئےاس لئے کہ صبر اور شکر ایسی صفات ہیں جو ازدواجی زندگی کی ہر تلخی کو دور کرکے اسے خوشگوار بنا دیتی ہیں ۔
دوسرا اصول حسن سلوک ہے:
قرآن کریم میں اللہ پاک کا شوہر کو حکم ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ،اس کے نان ونفقہ اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کرے ۔ اس لئے کہ بیوی محض اپنے شوہر کی خاطر اپنے والدین، بھائی بہنوں، اپنا گھر اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر آتی ہے ۔اس کی خدمت کرتی ہے، اس کے بچوں کو پالتی ہے اور اس کا گھر سنبھالتی ہے ۔یقیناََ یہ ایک بہت بڑی قربانی ہے جو اگر شوہر پر عائد کی جاتی تواس کے لیے یہ قربانی دینا یقیناً دشوار ہوتا ، اس لئے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جس کا سلوک اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو،اور میں تم سب کے مقابلے میں اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہوں۔(ترمذی)
تیسرا اصول معاف کرنا ہے:
یعنی اگر ایک دوسرے سے کوئی غلطی ہوجائے تو زوجین اسے معاف کردیں! چونکہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہیں، اس لئے بیوی سے کوئی غلطی ہوجائے تو شوہر کوچاہئے کہ وہ اسے معاف کردے۔ ۔
بیوی کی اصلاح کے سلسلے میں قرآنی ہدایات
شریعت نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور انہیں راضی اور خوش رکھنے کی کوشش کریں، لیکن بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنے شوہروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہیں اور ان کی نافرمانی کرتی ہیں، ایسی عورتوں کی اصلاح کیلئے قرآن کریم میں چند بنیادی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن میں پہلی ہدایت یہ ہے کہ شوہر نرمی اور محبت سے اپنی بیوی کو سمجھائے، بعض لوگ فوراََ سختی اختیار کر لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بات مزید بگڑ جاتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے
تمہاری شان گھٹ جاتی یا رتبہ گھٹ گیا ہوتا
جو غصے سے کہا تم نے وہی ہنس کر کہا ہوتا
اگر بیوی محض سمجھانے سے باز نہ آئے تو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیوی سے خواب گاہ میں علاحدہ رہا جائے ، یا کچھ دنوں بات چیت نہ کی جائے اور اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا نہ کھایا جائے ، تاکہ اسے شوہر کی ناراضگی کا احساس ہو ۔ البتہ بیوی کو بالکل تنہا نہ چھوڑے، ورنہ فساد اور اختلاف بڑھنے کا اندیشہ ہے ۔
اگر اب بھی بیوی اپنی روش نہ بدلے اور اپنی اصلاح نہ کرے تو پھر ا س کو معمولی مار مارنے کی اجازت ہے ، ایسی مار جس سے زخم نہ آئے، اسی طرح چہرے پر مارنے سے بھی حضور اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔بعض لوگ معمولی معمولی باتوں پر بیوی کی ڈنڈے سے پٹائی کرتے ہیں، اور جب بیوی مہیلا منڈل یا پولس اسٹیشن میں جاکر شکایت کرتی ہے تو پھر ایسے لوگوں پر قانون کا ڈنڈا برستا ہے ۔ اسی لیے کہا گیا کہ بیوی کے ساتھ مار پیٹ کرنا اچھے مرد کی شان نہیں ۔
ان تین طریقوں سے بھی اگر بیوی کی اصلاح نہ ہو اور گھر کا مسئلہ گھر میں حل نہ ہوسکے تو اب قرآن چوتھا طریقہ بیان کرتا ہے کہ شوہر اور بیوی کے خاندانوں سےدو سمجھ دارا فراد کا انتخاب کیا جائے جو فریق اور وکیل نہیں بلکہ حکم اور خیر خواہ بن کر زوجین کے الجھے ہوئے مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کریں گے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی کوشش کو ضائع نہیں ہونے دے گا اور میاں بیوی میں موافقت پیدا ہوجائے گی ۔
اصلاح کے ان چار طریقوں پر اگر پورے طور پر عمل کیا جائے تو قوی امید ہے کہ زوجین کے درمیان پائی جانے والی ناچاقیاں ختم ہوجائیں ان کے اختلافات دور ہوجائیں اور ان کی ناخوش گوارزندگی خوشگوار ازدواجی زندگی میں تبدیل ہوجائے۔
اسلام کانظام طلاق
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصلاح حال کی تمام کوششیں بے سود اور ناکام ثابت ہوتی نظر آتی ہیں ، بات بنائے نہیں بنتی اور زوجین کے لیے ایک دوسرے کا رشتہ ایک دوسرے کی دل داری کے بجائے دل آزاری کا باعث بن جاتا ہے، ایسے موقع پر شریعت اسلامیہ نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ ایک طلاق دے کر اچھے انداز میں بیوی کو رخصت کردے، اس لئے کہ اب ایسے رشتہ کو ختم کردینے میں ہی شوہر اور بیوی کی بھلائی ہے ۔طلاق کی گنجائش اسلام نے ناپسندیدہ ضرورت کی حیثیت سے باقی رکھی ہے ۔ بقول شاعر
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
ایک اوردو طلاق رجعی دینے کے بعد عدت گزرنے سے پہلے شوہر کے لیے رجو ع کی گنجائش باقی رہتی ہےاور عد ت گزر جانے کے بعدبھی یہ موقعہ ہوتا ہے کہ مرد و عورت باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر لیں ،لیکن تین طلاق دینے کے بعدیہ سہولتیں باقی نہیں رہتیں۔ یہ اسلام کانظام طلاق ہے،غور کیجئے کہ اس نظام پر اگر عمل کیا جائے تو کیا تین طلاق کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟مگر افسوس! ان قرآنی ہدایات سے ناواقفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر تین طلاق کے واقعات پیش آرہے ہیں، ہنستے کھیلتے گھرانے اور خاندان تباہ ہورہے ہیں، بچے ضائع ہورہے ہیں، مسلمانوں کی بدنامی ہورہی ہے اور غیروں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ کا صاف ارشاد ہے کہ اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ۔(ابو داؤد)
تین طلاق کے قانون کی حقیقت
تین طلاق کے واقعات کو بنیاد بنا کر حکومت نے تین طلاق بل کے نام سے ایک ایسا قانون نافذ کیا ہے، اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے تو اس قانون کی رو سے اسے تین سال کیلئے جیل میں ڈال دیا جائے گا، اور جیل میں رہتے ہوئے بھی اسے بیوی کا خرچ دینا ہوگا، اور عجیب بات یہ ہے کہ تین طلاقیں واقع نہیں مانی جائیں گی، چناچہ تین سال کے بعد بھی شوہر کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس خاتون کو اپنی بیوی کے طور پر ساتھ رکھے جس نے اسے جیل بھیجاتھا، حالانکہ بیوی شرعاََ اس کے لئے حرام ہوچکی ہوگی۔
عزیزان گرامی! اس عجیب و غریب قانون کے پیچھے جہاں مسلمانوں کی بربادی کا منصوبہ کار فرما ہے وہیں بے جا طلاق دینے والوں کا غیر شرعی طرز عمل بھی اس کا ذمہ دار ہے ۔
پتھر گرا ہے سر پہ خود اپنے مکان سے
شکوہ کروں تو کیسے کسی آسمان سے
اس لئے مسلمان مرد اور عورتوں خصوصا نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ نکاح سے قبل مذکورہ تعلیمات و ہدایات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں ۔سرپرست حضرات اور والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کے نکاح کے لئے جہاں بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں وہیں ازدواجی زندگی کے سلسلے میں بھی ان کی رہنمائی کریں!
میں تمام شادی شدہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے حق میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان کو خوشگوار ازدواجی زندگی اور خوشحال خاندانی نظام نصیب فرمائے اور ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین
0 تبصرے