Ticker

6/recent/ticker-posts

بخش دو گر خطا کرے کوئی

 میں بھی حاضر تھا وہاں 
(سفر نامہ حرمین تیسری قسط)

 تحریر :مفتی محمد عامر یاسین ملی

   حج سے متعلق سورہ بقرہ کی آیت نمبر 197میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ حج میں نہ کوئی فحش اور گناہ کی بات ہو اور نہ کسی سے جھگڑا ہو۔ ہم سوچیں گے کہ ایسے مقدس سفرمیں بھلا کوئی کسی سے کیوں کر جھگڑا کرے گا؟لیکن جب عملاً حرمین شریفین کا سفر کیا جائے تو انداز ا ہوتاہے کہ اس سفر میں صبر وبرداشت اورعفو درگزرکی ضروری ہے، اس لئے کہ اجتماعی شکل میں سفر کرنے ، رہائش پذیر ہونے اور عبادت کرنے کی صورت میں بحث ومباحثے اور لڑائی جھگڑے کا امکان رہتا ہے ،خصوصاً گروپ کی شکل میں جانے والے لوگوں کے لیے! مثلاً جہاز یا بس میں سوار ہوتے اور اترتے وقت ،ہوٹل کا من پسند کمرہ لینے کے لیے ،کھانے کے وقت کرسی ٹیبل حاصل کرنے کے لیے ، لفٹ استعمال کرنے کے وقت ، استنجاء او ر وضو خانے پر ،حرمین شریفین میں نماز کے لیے جگہ حاصل کرنے کے وقت ،اسی طرح حطیم میں داخلے ،دیوار کعبہ اور ملتزم سے چمٹنے اور حجر اسود کا بوسہ لینے کے وقت، یہاں تک کہ طواف اور سعی کےدوران جب ہر لمحہ ایک دوسرے کا دھکا لگتا ہےاور ایک دوسرے کے پیر سے ٹھوکربھی لگتی رہتی ہے ،ان تمام تر مقامات پر صبر و برداشت اور عفو درگزر کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ،اور بحث ومباحثے اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا ضروری ہے ۔ اگر اللہ نے ولاجدال کہہ کرجھگڑے سے روکا نہ ہوتا تو شایدلاکھوں لاکھ افراد بیک وقت ایک ساتھ عبادت کرنے اور ٹھہرنے کے دوران نہ جانے کتنی بار آپس میں لڑ پڑتے،لیکن یہ اللہ کے حکم کا کرشمہ اور حرمین شریفین کے تقدس کا اثر ہے کہ عام طریقے پر ایک دوسرے سے تکلیف پہنچنے کے باوجود لوگ نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے کہ سامنے کون ہے یا پیچھے سے کس کا دھکا لگا ہے ،البتہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایسی جگہوں پر بھی در گزر سے کام نہیں لیتے اور بحث و مباحثہ شروع کر دیتے ہیں،خصوصاً ہمارے وطن کے بعض لوگ جو شاید عمدہ قسم کے پکوان اور پر تعیش رہائش کے لیے ہی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتے ہیں ،چنانچہ سہولیات میں تھوڑی کمی بھی انہیں گوارا نہیں ہوتی اور وہ فوراً ٹور آپریٹر یا معلم سے الجھنا شروع کردیتے ہیں ۔
ایک ٹور آپریٹر نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ ناشتے میں شہد ختم ہوگئی تھی اور رات زیادہ ہوجانے کی وجہ سے میں قبل از وقت دکان سے شہد نہ لاسکا ،صبح ناشتے میں جب شہد نہ ملی تو ایک حاجی صاحب نے فوراً ہندوستان کی ٹور آفس میں فون کرکے شکایت کی کہ آج تو مجھے ناشتے میں شہد ہی نہیں ملی۔
ایک اور واقعہ سنئے!ٹور کی جانب سے لانڈری سروس فری ہوتی ہے لیکن اس سروس میں صرف بڑے کپڑے ہی دھلنے کے لیے دئیے جاتے ہیں ، کچھ عازمین نے ٹور آپریٹر سے اس بات کو لے کر بحث کی کہ ہمارے انڈر ویئر بھی دھو کر دیئے جائیں ،اور پھر انہوں نے دھوبی کو مجبور کیا کہ وہ ان کو انڈر ویئر بھی دھوکر دے۔
اس سلسلے میں کچھ اور اہم باتیں ہم آنے والی قسطوں میں تفصیل کے ساتھ لکھیں گے ۔بات چل رہی تھی کہ مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد عمرہ کی ادائیگی میں عجلت نہ کی جائے ،بعض حضرات اس سلسلے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں ،عموماً پہلی مرتبہ پہنچنے والے حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں عمرہ ادا ہوجائے گااور وہ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجائیں گے ،لیکن انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ مطاف اور مسعی میں بھیڑ اس قدر ہوتی ہے کہ کم ازکم دو سے ڈھائی گھنٹے طواف اور سعی میں صرف ہوجاتے ہیں ۔طواف کا چکر مختصر اور طویل ہونے کا انحصار تو اس بات پرہوتا ہے کہ کعبۃ اللہ سے کس قدر فاصلے پر طواف کیا جائے ،لیکن سعی کا فاصلہ متعین ہے ،صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے ،اس لیے عمرہ کی ادائیگی کے سلسلے میں عجلت نہیں کرنی چاہیے ۔ہم لوگ بھی بس سے اتر کر پہلے ہوٹل پہنچےجو شارع ہجرۃ(مسجد الھجرۃ کے بازو میں)واقع تھی، وہاں کھانا ہوا اور پھر روم پر ہی نماز وغیرہ سے فراغت اور اچھی طرح آرام کرلینے کے بعد صبح کے وقت عمرہ کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین روانہ ہوئے۔ دس منٹ میں ہم لوگ مسجد حرام کے گیٹ پر پہنچ گئے اور پھر مسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھ کر تلبیہ پڑھتے ہوئے نگاہ نیچی کرکے مطاف میں پہنچے اور پھر 
کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر 
کیا چیز ہے دنیا بھول گیا 
اللہ اللہ ! یہ کیسا حسین منظر ہوتا ہے اور زندگی کی یہ کیسی یادگار گھڑی ہوتی ہے جب ہماری گناہ گار آنکھیں بغیر کسی رکاوٹ کے اللہ کے پاک اور مقدس گھر کا دیدار کرتی ہیں، یہ قبولیت دعا کا موقع ہوتا ہے ، لھذا جی بھر کر دعا کی گئی، اپنے لیے ، اہل خانہ اور عزیزوں نیز مرحومین کے لیے اور بالعموم پوری امت کے لیے! وہ دعا بطور خاص کی گئی جو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر کی تھی کہ اے اللہ! میں جب بھی جہاں بھی جو بھی دعا کروں تو اس کو شرف قبولیت عطا فرما! دعا سے فارغ ہو کر عمرہ کے لیے طواف کی نیت کی اور پھر طواف شروع ہوا ، اس احساس کے ساتھ کہ 
تیرے در کے پھیرے لگاتا رہوں میں 
سدا شہر مکہ میں آتا رہوں میں 
(جاری)
نوٹ:اگلی قسط میں عمرہ کی ادائیگی کا مسنون طریقہ اور اس سے متعلق ضروری باتیں تحریر کی جائیں گی ،ان شاء اللہ!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے