Ticker

6/recent/ticker-posts

سفر تو ’’سفر ‘‘ہے

از:مفتی محمد عامریاسین ملی                 

(سفر نامہ حرمین دوسری قسط)طے شدہ پروگرام کے مطابق مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۲۴ءبروز پیر کو عصر کے وقت ممبئی ایئر پورٹ کے لیےلگژری بس کے ذریعے گروپ کی شکل میں مالیگائوں سے روانگی ہوئی ،سات میں والدہ محترمہ کے علاوہ بڑی ہمشیرہ اور اہلیہ بھی تھیں، ہم لوگوں کا جہاز وایا ریاض تھا،رات میں تین بجے ہم لوگ ممبئی ایئر پورٹ پہنچے اور ساڑھے چار بجےاندر داخل ہوئے ،امیگریشن کے بعد تقریباً چھ بجے ہم لوگ ایئر پورٹ کی عبادت گاہ میں پہنچ گئے ،صبح آٹھ بجے سعودی ایئر لائنز کاجہاز تھا ،سواسات بجے ہم لوگ جہاز میں بیٹھ گئے اور طے شدہ وقت کے مطابق جہاز نے اڑان بھری،جہازکے اسپیکر کے ذریعےتمام مسافروں کو سفر کی دعا پڑھائی گئی اور کرسیوں کے سامنے موجود اسکرین پر سفر کی مکمل دعا بھی نمایاں ہوئی ،تا کہ دیکھ کر لوگ دعا پڑھ لیں۔جب جہاز کے مائک سے دعا پڑھائی گئی تو یہ احساس پیدا ہوا کہ واقعی ہم کسی اسلامی ملک کےجہاز میںسفر کررہے ہیں ۔عمرہ کا پہلا سفر اسپائس جیٹ نامی کمپنی کے جہازسے ہوا تھا اور اس مرتبہ سعودی ایئر لائنز کے ذریعے ،دونوںکی سروس اور سہولیات میں فرق نمایاں طور پر نظر آیا کہ سعودی ایئر لائنز کے جہاز میں نشستیں بھی آرام دہ تھیںاور مسافروں کی راحت کا بڑاخیال رکھا گیاتھا ،تمام مسافروں کو اے سی کی ٹھنڈک سے بچائو کے لیے کمبل فراہم کیا گیا تھا۔کچھ ہی دیر کے بعدجب جہاز آسمان کی بلندیوں پر پہنچ گیا توچند سلیقہ مند اور خوش مزاج نوجوانوں کی ایک ٹیم مسافروں کی خدمت کے لیے حاضر ہوئی،ان کی جانب سے گرم پانی سے تر ایک ٹشو پیپر دیا گیا تاکہ اپنے ہاتھ اور چہرے کو اچھی طرح پونچھ لیا جائے ،اس کے کچھ دیر کے بعد باضابطہ سارے ہی مسافروں کو پرتکلف ناشتہ کروایا گیا ،ناشتے میں ویج اور نان ویج دونوں طرح کی چیزیںشامل تھیں،ساتھ ہی ساتھ ٹھنڈے اور میٹھے مشروبات کا بھی نظم تھا ۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جہاز کا عملہ (چاہے وہ نوجوان مردوں پرمشتمل ہو یاخواتین پر)وہ مسافروںکے ساتھ جیسا محبت واپنائیت والارویہ رکھتا ہے اور جس طرح نرمی اور احترام کے ساتھ ان سےگفتگوکرتا ہے ،اس کودیکھ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ اگر ہم لوگ صرف اپنے اہل خانہ اور رشتے داروںکے ساتھ ایسا برتائو کریں تو گھر اور خاندان کاماحول کیساخوشگوار ہوجائے۔مسافروںکی خدمت اوران کے ساتھ حسن سلوک ان لوگوں کا پیشہ ہے اور ذمہ داری بھی ،یعنی یہ ساری چیزیں مصنوعی ہوتی ہیں اورباضابطہ ان کوسکھائی جاتی ہیں اور اس کے عوض ان کوتنخواہ بھی جاتی ہے،سوچئے تو سہی !یہی ادب واحترام ،میٹھی زبان اور حسن سلوک کامعاملہ اگر اخلاص کے ساتھ انجام دیاجائے تو اس کا نتیجہ کتنا خوشگوار ہوگا!بہرحال جہازپوری رفتار کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ ساڑھے گیارہ بجے ہم لوگ ریاض کے کنگ خالد انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر پہنچے ،وہاں چیک پوائنٹ سے گزرنے کے بعد ایک بس کے ذریعے ہمیں ریاض ایئرپورٹ کے ہی دوسرےحصے میں لے جایا گیا ،جہاں سے ڈومیسٹک یعنی اندرون ملک کے لیے پروازیں روانہ ہوتی ہیں ،وہاں ہم لوگوں نے عبادت گاہ میں احرام باندھا اورراقم کی اقتداء میں تمام لوگوں نے ظہر کی نماز باجماعت ادا کی،پھردورکعت نفل پڑھنے کے بعد راقم نے تمام لوگوں کوتلبیہ پڑھوایااور احرام سے متعلق باپندیوں اور اہم باتوں سے ان کوآگاہ کیا۔یہاں سے دو بجے کا جہاز تھا ،ڈیڑھ بجے ہم لوگ جہاز میں بیٹھ چکے تھے ،طے شدہ وقت پر جہاز روانہ ہوا اور تقریباً پونے دو گھنٹے بعد جدہ ایئر پورٹ پر اترا ،ریاض سے جدہ تقریبا نوسو ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ،یہ فاصلہ پونے دو گھنٹے میں طے ہوگیا ،چونکہ ریاض میںہم لوگ چیک پوائنٹ سے گزر چکے تھے ،اس لیے جدہ میں جہاز سے اترنے کے بعد ہم لوگ بغیر کسی تفتیشی کاروائی کے باہر آگئے ،یہاں پہلے سے لگژری بس موجود تھی ،چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں جب سارے حضرات بس میں بیٹھ گئےتو بس جدہ سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئی ،اور پھر دو گھنٹے کے بعد ہم لوگ اپنی منزل مکہ مکرمہ پہنچے ،جس وقت ہم لوگ بس سے اتر کر ہوٹل میں داخل ہورہے تھے،اس وقت حرمین شریفین میں عشاء کی نماز شروع ہورہی تھی ،شیخ عبد الرحمن السدیس اپنی مسحور کن آواز اور پرسوز لہجے میں قرآن پاک کی سورہ فجر کی تلاوت فرمارہے تھے ، مسلسل سفر سے بدن تھک کر چور ہوچکا تھا اور تقاضا یہی تھا کہ پہلے ہوٹل پہنچ کر آرام کیا جائے ،لیکن دل حرمین شریفین کی جانب کھنچا جارہا تھا ،یہ کعبۃ اللہ کی کشش تھی اور شیخ سدیس کی پرسوز تلاوت کا اثر ،لیکن چونکہ حضرات علماء کرام کی یہ ہدایت ہے کہ مکہ مکرمہ یامدینہ منورہ پہنچنے کےبعد پہلے قیام گاہ جانا چاہیے اور تمام تر ضروریات (استنجاء،کھانا ،آرام) سے فارغ ہونےکے بعد اچھی طرح وضو یا غسل کر کے ہشاش بشاش طبیعت کے ساتھ حرمین شریفین میں حاضر ہونا چاہیے ،تا کہ پوری دلجمعی اور سہولت کے ساتھ عبادات انجام دی جاسکیں۔یوں بھی اپنے مقام سے مکہ مکرمہ پہنچنے تک سفر اس قدر طویل ہوجاتا ہے کہ بدن میں سکت باقی نہیں رہتی ،کہنے کو ہوائی جہاز کا سفر بہت تیزی کے ساتھ طے ہوتا ہے لیکن جہاز پر بیٹھنے سے پہلے اور بعد کے مراحل اتنے طویل ہوتے ہیں کہ اچھے خاصے صحت مند لوگوں کی ہمت بھی جواب دے جاتی ہے ،کھانے کا نظم تو کسی طرح ہوجاتا ہے لیکن نیند کی کمی کی وجہ سے طبیعت میں بگاڑ اور مزاج میں چڑ چڑا پن آنے لگتا ہے،پھر اچھی باتیں بھی ناگوار محسوس ہوتی ہے اور معمولی معمولی باتوں پر لوگ یہاںںتک کہ زوجین بھی ایک دوسرے سے الجھنے لگتے ہیں ،یہی موقع ہوتا ہے صبر وتحمل اور عفو ودرگزر کا ۔(جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے