قارئین! آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص با جماعت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے وہ امام کے پیچھے اپنی نماز ادا کرنے کی نیت کرے،یعنی نماز پڑھنے کی نیت کرنے کے ساتھ ساتھ زبان سے کہے یا دل میں یہ ارادہ کرے ’’پیچھے اس امام کے‘‘۔اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اب وہ شخص جماعت میں شامل ہوکر امام کے تابع ہوچکاہے ،اب جیسے جیسے امام نماز اداکرے گا،یہ بھی اس کے پیچھے پیچھے نماز ادا کرے گا،اور جب تک وہ نماز میں شامل ہے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام کے پیچھے یعنی اس کے تابع رہے ،اگر کوئی شخص ارکان نماز کی ادائیگی میں امام سے آگے بڑھ جائے ،یا عملاً امام سے آگے بڑھ کرصف لگائے تو ایسے شخص کی نماز ادانہیں ہوگی ۔معلوم ہوا کہ نماز میں امام کے پیچھے رہنا ضروری ہے ۔
باجماعت نماز ادا کرنےوالے تمام مصلیان امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ، الحمد للّٰہ ان کی اکثریت اپنے امام اور مؤذن سے محبت رکھنے والی اور ان کا اکرام والی ہوتی ہے ،لیکن کچھ لوگ اس جملے (پیچھے اس امام کے)کا شاید یہ مطلب بھی لے لیتے ہیں کہ اب ہمیں امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے بھی پڑے رہنا ہے ،چنانچہ وہ کسی نہ کسی شکل میں اپنے امام کا پیچھا اٹھائے رہتے ہیں ،ہر مسجد میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں ،جنہیں علماء ،ائمہ اور مؤذنین سے بغض ہوتا ہے ،وہ بغیر کسی شرعی وجہ کے مسجد کے امام اور مؤذن کا پیچھا اٹھائے رہتے ہیں ،معمولی معمولی باتوں کولے کر امام اور مؤذن پر اعتراض اور تنقید کرنا ،ان کو برا بھلا کہنا ،پیٹھ پیچھے ان کی غیبت کرنا ،ان پر تہمت لگانا اور مسجد سے ان کوبغیر کسی شرعی وجہ کے معزول کرنے کی کوشش کرنا،ایسے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے،عموماً یہ وہ بےچارے لوگ ہوتے ہیں جن کی اپنے گھرمیں بھی کوئی نہیں سنتا ،چنانچہ وہ مسجدمیں آکر اپنی بات سنانے اوراپنا رعب جمانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں ، تعجب ہے کہ اگر کوئی عام شخص ان کے سامنے کھلم کھلا حرام کام کا ارتکاب کرے تو ان کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کو منع کریں لیکن کوئی امام ، مؤذن یا عالم جائز اور حلال کام بھی کرے تو ان کو اعتراض ہونے لگتا ہے ، دراصل ائمہ، علماء اور ومؤذنین اپنے علم ،منصب اور اپنی شرافت نفسی کی وجہ سے ایسے لوگوں کو منھ نہیں لگاتے، ان کو جھیلتے رہتے ہیں اورعام طریقے پر ان لوگوں کےجاہلانہ اور بےتکے اعتراضات، شرارتوں اورنامناسب حرکتوں کاجواب نہیں دیتے، جس کی وجہ سے یہ لوگ ائمہ و مؤذنین کو کمزور سمجھتے ہیں اور ان کی شرارتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ بہت ساری مساجد میں اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ،افسوس کہ دیندار اورباشعور مصلیان وذمہ داران کی جانب سے بھی عموماً ایسے فتنہ پرور افراد اورشرپسندوں کی سرزنش نہیں کی جاتی ،جس کی وجہ سے ان لوگوں کا حوصلہ بڑھتا رہتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عموماً ایسے لوگوں کے گھر اور خاندان میں کوئی فرد عالم حافظ یاامام ومؤذن نہیں ہوتا کہ ان کو ائمہ ومؤذنین کے مقام اور ان کی نازک ذمہ داریوں کا احساس ہوسکے ، ذرا سوچیں کہ مسجد میں پنج وقتہ نمازوں کی امامت اور اذان کہنے کی ذمہ داری کوئی معمولی کام ہے ؟ ائمہ و مؤذنین کو سال کے تین سو ساٹھ دنوں میں اور اٹھارہ سو مرتبہ حاضر ہونا پڑتا ہے ،یہ واحد ذمہ داری ہے جس میں نہ عید پر چھٹی ہوتی ہے نہ بقرعید پر ، ہمیشہ وقت اور موسم ایک جیسا نہیں رہتا، اگر کبھی اذان و نماز میں کچھ تاخیر یا غیر حاضری ہو جائے تو اس پر واویلا مچانا مناسب نہیں۔
قارئین! ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ بعض ائمہ ومؤذنین میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کمی کوتاہی پائی جاتی ہے ، جس کی اصلاح ہونی چاہیے ، لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ اچھے انداز میں ان کی اصلاح اور فہمائش کے بجائے ان کا پیچھا ہی اٹھایا لیاجائے اور بغض وعداوت میں مبتلاہوکر ان کی کردار کشی کی جائے اور ان کے ساتھ بدسلوکی یہاں تک کہ ان کو اپنے منصب سے معزول کرنے کی کوشش کی جائے ۔ ائمہ کی بہ نسبت مؤذنین کو تو بہت سارے لوگ بالکل ہی حقیر سمجھتے ہیں ، حالانکہ حدیث شریف میں اذان کہنے والے کا مقام بہت ہی بلند بتایا گیا ہے ، ارشاد نبوی ہے: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤذن کی گردن کو تمام مخلوق سے بلند فرمادیں گے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤذن کو قیامت کے دن بہت اونچا مقام عطا کریں گے۔(مسلم) اذان کہنا اپنے آپ میں بڑے شرف کی بات ہے اور بڑے اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ بھی ! خوش نصیب ہے وہ جسے ایسی خدمت کا موقع مل جائے ۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ائمہ و علماء اور مؤذنین ہمارے محسن ہیں اور اللہ کے گھر کے خدمت گار بھی ! یہ پیدائش کے موقع پر اذان کہنے سے لے کر موت کے بعد نماز جنازہ پڑھانے اور قبر کے پاس کھڑے رہ کر مرنے والے کی مغفرت کی دعا کرنے تک لوگوں کی مخلصانہ خدمت انجام دیتے ہیں ، لھذا ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بدسلوکی بدبختی، احسان فراموشی اور ظلم ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ اپنے آپ کو تباہی اور ہلاکت کے راستے پر ڈالنا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے علماء سے بغض رکھنے سے منع فرمایا ہے۔سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: عالم بنو یا طالبعلم بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو یا ان کی پیروی کرنے والے بنو، اور پانچویں نہ بننا(یعنی ان سے بغض رکھنے والے نہ بنو) ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔(بیہقی)
میں ایسے افراد سے یہی کہنا چاہوں گا کہ آپ امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھیں لیکن ان کے پیچھے نہ پڑیں،اور نہ ہی امام سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں،اس لیے کہ امام کے آگے صرف مردہ ہی ہوتا ہے۔امام کے پیچھے نیت باندھ کرکھڑے رہنا اور ائمہ و علماء کرام کی پیروی کرتے رہنا زندہ ہونے کی علامت ہے اور کامیابی کی دلیل بھی !
*-*-*
0 تبصرے