Ticker

6/recent/ticker-posts

جمعہ کا پیغام سلسلہ نمبر 2 : قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ قربانی کا مقصد اور سیرت ابراہیمی کا پیغام بھی پیش نظر رکھیں!

مساجد میں ذی الحجہ کی فضیلت اور سیرت ابراہیمی کا پیغام کے عنوان سے کیے گئے خطاب جمعہ کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں:

از :مفتی محمد عامریاسین ملی
   
   مورخہ 7؍جون بروز جمعہ نماز جمعہ سے قبل شہر مالیگاؤں کی چالیس سے زائد مساجد میں ذی الحجہ کے فضائل اور سیرت ابراہیمی کے پیغام کے عنوان سے مشترکہ خطاب ہوا جس میں گلشن خطابت گروپ سے منسلک مقررین نے ذی الحجہ کے فضائل اور حضرت ابراہیم اسماعیل علیہ السلام کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی،قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں نیز مستند واقعات کے حوالے سے مقررین نے جو خطاب کیا اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل سطروں میں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)ذی الحجہ اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ہے اور حرمت والے مہینوں میں شامل ہیں ،قرآن کریم کی سورہ فجرمیں اللہ نے جن دس راتوں کاتذکرہ فرمایا ہے ان سے مراد ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں ۔حدیث شریف کے مطابق ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نیک عمل کرنا دوسرے تمام دنوں میں نیک عمل کرنے سے افضل ہے ۔(بخاری)لہذا ہمیں ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں اور راتوں میں فرائض کے ساتھ ساتھ نفل نمازوں اور روزوں اسی طرح ذکر واذکار ، صدقہ وخیرات اور دعاؤں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے ۔
(۲)۹؍ذی الحجہ کا دن ’’یوم عرفہ ‘‘کہلاتا ہے،یوم عرفہ کا روزہ مستحب ہے،اس روزے کا بھی ہمیں اہتمام کرنا چاہیے ،نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا۔
(۳)ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک صاحب نصاب کے لیے اپنے بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب ہے، اور اس کے خلاف عمل کرنا یعنی اپنے بالوں اور ناخن کو کاٹنا بہتر نہیں ہے لیکن کوئی گناہ کی بات بھی نہیں ہے۔عام لوگ اس سلسلے میں مبالغے سے کام لیتے ہیں اور اس چیز کا اتنا اہتمام کرتے ہیں جتنا فرائض کی انجام دہی کا بھی نہیں کرتے ،اور اگر کوئی شخص اپنا بال یا ناخن کاٹ لے تو اس پر نکیر کرتے ہیں ،یہ چیز درست نہیں ہے ۔
(۴)قربانی حضرت ابراھیم واسماعیل علیھما السلام کی یادرگار ہے اور اس کا مقصد بندگان خدا کے دلوں میں ان دونوں ہی جلیل القدر پیغمبروں کے جیسا جذبۂ اطاعت وفرمانبرداری پیدا کرنا ہے ،لہذا ہم قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقدس ہستیوں کے حالات زندگی اور ان کی قربانیوں کا بھی مطالعہ کریں ۔
(۵)حضرت ابراہیم واسماعیل علیھما السلام کا تذکرہ کرنا اور ان کے حالات زندگی کو پڑھ اور سن لینا کافی نہیں ہے ،بلکہ اپنے آپ کو ان کے نقش قدم پر گامزن کرنا ضروری ہے ۔
(۶)سیرت ابراہیمی کا بغور مطالعہ کرنے سے ہمیں جو پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے :
(الف)بندوں کو سب سے زیادہ محبت اورتعلق اللہ کی ذات سے ہونا چاہئے ۔
(ب)جس شخص کا تعلق اللہ کی ذات سے جس قدر مضبوط ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ہوگا۔
(ج)گناہوں بھرے ماحول اور مقامات میں اگر اپنے دین وایمان یا جان ومال کا تحفظ مشکل ہوجائے تو ایسی جگہوں اور ماحول سے نکل جانا چاہیے ۔
(د)عام طریقے پر انسان کا نفس ،اس کی خواہشات ،آل واولاد کی محبت اور جان ومال کا خوف یہ تمام چیزیں حکم الٰہی کی تعمیل اور دین پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہیں ،جو ان رکاوٹوں کو پار کرلے وہی اللہ کے حکم کو پورا کرسکتا ہے۔
(ھ)اہل ایمان کے لیے سب سے زیادہ اہم اور ضروری صفت اگر کوئی ہے تو وہ استقامت اور ثابت قدمی ہے ،استقامت ہی اہل ایمان کو نیک اعمال کی انجام دہی اور گناہوں سےا جتناب کی راہ پر چلاتی ہے ،حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام تمام تر آزمائشوں اور امتحانات میں ثابت قدم رہے جس کی بدولت انہیں امتحانات میں کامیابی ،رہتی دنیا تک عزت ونیک نامی اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوئی ۔
قارئین! سیرت ابراہیمی کا یہ پیغام ہے کہ ہم قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی سیرت طیبہ کو پڑھیں ،اس پر غور کریں اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں تو امید ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی تمام تر آزمائشوں میں کامیاب فرمائیں گے اور عزت و نیک نامی اور اپنی رضا سے سرفراز فرمائیں گےان شاءاللہ!
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا 
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
*-*-*

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے