تحریر: مفتی محمد عامریا سین ملی
قارئین ! اس وقت ہمارا اپنا شہر ہی نہیں پوری ریاست بلکہ ملک کے اکثر وبیشتر علاقے سخت گرمی اور دھوپ کی شدت سے جھلس رہے ہیں ،انسان، جانور اور چرند پرند سب ہی جھلسانے دینے والی گرمی سے پریشان ہیں،بہت سارے افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ امسال کی گرمی نے اب تک کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ، عام لوگ جہاں گرمی سے بچاؤ کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کررہے ہیں وہیں گرمی کے اسباب و وجوہات پربھی غور کررہے ہیں ،تمام ہی لوگوں کا یہ احساس ہے کہ گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت کا بنیادی سبب درختوں میں ہونے والی نمایاں کمی ہے،اس لیے کہ درخت اور جنگلات قدرتی طور پر گرمی سے حفاظت کا بہت ہی اہم ذریعہ ہیں ، درخت کی اہمیت اور اس کے فوائد کے موضوع پر خواجہ نور الزماں اویسی کا ایک اہم مضمون نظر سے گزرا جس کا ایک اقتباس یہاں نقل کررہا ہوں :
’’درخت لگانے کے بہت سارے فوائد ہیں۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں ، درخت اور پودے لگانے سے ما حول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔ درخت لینڈ سلائیڈنگ کی روک تھام کا بھی باعث بنتے ہیں ، کیونکہ درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ یا لینڈ سلائیڈنگ نہیں ہوتی۔عالمی ماحول کے درجہ حرارت میں خطر ناک حد تک اضافہ ”گلوبل وارمنگ “ کہلاتا ہے۔ جس کی وجہ درختوں کو تیزی سے کاٹنا اور صنعتوں کو تیزی سے قیام میں لانا اور بسوں اور گاڑیوں میں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ درخت اور پو دے گلوبل وارمنگ میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تا کہ گلوبل وارمنگ سے بچ سکیں۔
قارئین! مشاہدہ یہ ہے کہ پوری ریاست کے جن چند شہروں میں درجۂ حرارت سب سے زیادہ ہوتا ہے ان میں ہمارا اپنا شہر مالیگاؤں بھی شامل ہے ، افسوس کہ ہمارا شہر دیگر شہروں کے مقابلے ترقی کے لحاظ سے کافی پچھڑا ہوا ہے، یہاں سرکاری اور نیم سرکاری طور پر شجر کاری یعنی درخت لگانے کا کوئی خاص نظام نہیں ہے ،حالانکہ ہمارے یہاں سینکڑوں جگہیں اوپن اسپیس کے طور پر ویران پڑی ہیں ،اگر ان ہی جگہوں کو درختوں کے ذریعے آباد کردیا جائے تو نہ صرف یہ کہ درجہ حرارت میں بڑی حد تک کمی واقع ہوجائے بلکہ شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوجائے۔اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ساتھ عام شہریان کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طور پر اپنے گھروں کے سامنے درخت لگائیں اور جہاں پہلے سے درخت موجود ہیں ان کی حفاظت کریں،افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں اولاًتوشجر کاری کے سلسلے میں کوئی خاص اور منظم کوشش نہیں کی جاتی اور جو درخت پہلے سے موجود ہیں ان کو انتہائی بے دردی سے کاٹ دیا جاتا ہے ،یہ صورت حال پورے شہر کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ اپنے ذاتی فائدے کے لیے کسی درخت کو کاٹ دینے سے کس قدر نقصان ہوتا ہے اس کا انداز ڈاکٹر خولہ نامی مضمون نگار کے اس اقتباس کو پڑھ کر آپ کرسکتے ہیں ، وہ لکھتی ہیں کہ "سب سے زیادہ درخت ڈنمارک، سویڈن، پرتگال اور کیلی فورنیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں کے لوگ درخت نہیں کاٹتے کیونکہ وہ ان کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہیں۔ پرتگال کے ایک باغ کے باہر درج ہے کہ “اس راہ سے گزرنے والے انسان ! اس سے پہلے کہ تو مجھے کاٹنے کے لئے ہاتھ بڑھائے, میری بات سنتا جا! میں موسم سرما کی راتوں میں تیرے چولہے کا ایندھن بن کر تیرے گھر کو گرم رکھتا ہوں, موسم گرما میں تیرے لیے سایہ فراہم کرتا ہوں, ہوا کو آلودگی سے بچاتا ہوں, تیرے بچے کا پنگھوڑا اور موت کے بعد تیری قبر کا سامان بھی میں ہی ہوں۔"
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
میں اہلیان شہر خصوصاً کارپوریشن اسی طرح فلاحی اداروں اور تنظیموں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں آگے آئیں اور شجر کاری اور درختوں کی حفاظت کے عنوان سے باضابطہ مہم چلائیں ۔علماء کرام ،ائمہ مساجد اور مقررین کو بھی وعظ وبیان کے ذریعے عام لوگوں کو اسلام میں شجر کاری کی اہمیت وضرورت اور درختوں کی حفاظت کے فوائد سے واقف کرانا چاہیے ،شہر عزیز کے علماء ومقررین کی معروف تنظیم ’’گلشن خطابت‘‘ نے اس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ آنے والے جمعہ (۳۱؍مئی )کو شہر بھر کی مساجد میں ’’اسلام میں شجر کاری کی اہمیت وضرورت‘‘ کے موضوع پر مشترکہ طور پر خطاب کیا جائے ،ان شاء اللہ!
میں ذاتی طور پر بلا تفریق مسلک ومکتب فکر تمام ہی ائمہ مساجد اور مقررین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ موجودہ وقت کی اس اہم ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نماز جمعہ سے قبل شجر کاری کی اہمیت و ضرورت کے موضوع پر مسجدوں میں خطاب فرمائیں ، ان شاءاللہ گلشن خطابت کی جانب سے مقررین کو اس موضوع پراردو زبان میں مفصل ومدلل تقریری مواد بھی فراہم کیاجائے گا۔ اہلیان شہر سے بھی درخواست ہے کہ فی الحال شہر میں جو درخت موجود ہیں وہ ہمارے لیے بسا غنیمت ہیں، اس لیے ان کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھائیں ۔ خصوصا بچوں سے ان کو بچائیں اور ساتھ ہی ساتھ والدین اپنے بچوں کو اور اساتذہ اپنے شاگردوں کو درختوں کی اہمیت و افادیت سے آگاہ بھی کریں ۔ امید ہے کہ ہماری ان گزارشات پر توجہ دی جائے گی ۔
نوٹ : جو مقررین شجر کاری کے موضوع پر تقریری مواد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس نمبر پر وہاٹس ایپ میسج کریں:8446393682
0 تبصرے