از:مفتی محمد عامریاسین ملی
شہر مالیگائوں میں خودکشی کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں اور دن بدن ان میں اضافہ ہورہا ہے ،جس کی وجہ سے اہلیان شہر خصوصاً علماء کرام اور سرپرست حضرات تشویش میں مبتلا ہیں اور خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے فکر مند بھی ہیں ،گزشتہ ۲۱؍اپریل بروز اتوار بعد نماز عشاء جمعیۃ علماء(مدنی روڈ)میں ایک میٹنگ منعقد کی گئی تھی،جس میں دیگر عنوانات کے ساتھ شہر میں گزشتہ دنوں پیش آئے خودکشی اور قتل کے واقعات کی روک تھام کے سلسلے میں بھی غور وخوض کیا گیا ،اوریہ بات طے پائی کہ نماز جمعہ سے قبل بیانات اسی طرح تحریروں کے ذریعے عام مسلمانوں کو قتل اور خود کشی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے ،جمعیۃ علماء کے اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے مقررین کی معروف تنظیم ’’گلشن خطابت ‘‘ کی جانب سے ۲۶؍اپریل جمعہ کے روز شہر کی درجنوں مساجد میں قتل اور خودکشی کے عنوانات پرمشترکہ خطاب کیا گیا ،اس سے قبل تمام ہی مساجد کے ائمہ اور مقررین سے درخواست بھی کی گئی تھی کہ وہ اس موضوع پر خطاب کریں ،ساتھ ہی ساتھ گلشن خطابت کی جانب سے مقررین کو تقریری مواد بھی فراہم کیا گیا تھا۔
جمعیۃ علماء کی منعقدہ میٹنگ میں یہ بات بھی آئی کہ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے اس وجہ سے بھی خودکشی کی ہے کہ ان سے جانے انجانے میں موبائل اور سوشل میڈیا پر اخلاقی غلطی سرزد ہوئی ،جس کو بعض شرپسند افراد (جن کو عام زبان میں توڑی باز کہا جاتا ہے)نے ریکارڈ کرلیا ،اور پھر وہ لوگ ان لڑکے اور لڑکیوں کوآڈیو یا ویڈیو اور فوٹو وائر ل کرنے کی دھمکی دے کر بلیک میل کرنے لگے ،جس سے تنگ آکر انہوں نے خود کشی کرلی ،چنانچہ جمعیۃ علماء کی اصلاحی کمیٹی کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا گیا کہ اگر خدانخواستہ کسی فرد سے ایسی کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہو اور کوئی شخص اس کو پریشان یا بلیک میل کررہا ہوتو ایسا شخص جمعیۃ علماء کی اصلاحی کمیٹی سے رابطہ کرے،کمیٹی ایسے فرد کے نام اور شناخت کو راز میں رکھتے ہوئے اس کی مدد کرے گی اور توڑی بازی اور بلیک میلنگ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرے گی ۔لہذا نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اگر خدا نخواستہ اس طرح کی کوئی نوبت آجائے تو وہ خود کشی جیسا انتہائی قدم نہ اٹھائیں ،بلکہ سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے آئندہ گناہ سے بچنے کا پختہ عہد کریں اور بوقت ضرورت جمعیۃ علماء کی اصلاحی کمیٹی اسی طرح محلے کے سرکردہ حضرات اور اپنے سرپرستوں سے رابطہ کریں ۔یاد رکھیں کہ خودکشی مسائل کا حل ہرگز نہیں ہے،بلکہ بہت سارے مسائل کی جڑ ہے،بقول شاعر ؎
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اپنے مضمون کے اخیر میں ہم یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا کوئی عیب ظاہر ہوجائے یا کسی مرد وعورت سے کوئی گناہ اور غلطی سرزد ہوجائے تو دیکھنے والوں کا کام یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اس عیب اور غلطی کو مزید پھیلانے کے بجائے اس کو چھپانے اور پردہ ڈالنے کی کوشش کریں ۔یہی ایک مسلمان کا شرعی فریضہ ہے ،نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی دوسرے شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن پردہ پوشی فرمائے گا۔(مسلم )حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ ’’پردہ پوشی سے مراد یہ ہے کہ کسی نے کوئی برائی دیکھی ہوتو اسے لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے۔‘‘(ہاں ایسے شخص کی پردہ پوشی نہیں کی جائے جو دوسروں کے سامنے خود برائی کا اظہار کرے یا ڈھٹائی سے لوگوں کے سامنے گناہ کا ارتکاب کرے۔)پردہ پوشی کے بعدگناہ میں ملوث شخص کو تنہائی میں اچھے انداز میں نصیحت کریںاور اس گناہ کے نقصانات سے آگاہ کر کے اس کو توبہ کرنے پر آمادہ کریں۔افسوس کہ زیادہ ترافراد جوں ہی کسی شخص کے عیب یا گناہ سے واقف ہوتے ہیں، بلا توقف اور بغیر تحقیق کیے اس کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا شروع کردیتے ہیں اور اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے ،جب تک ایسی پوسٹ دسیوں گروپ میں اور پچاسوں افراد کو لوگ شیئر نہیں کرلیتے اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھتے ،گویا کہ یہ ایک شرعی فریضہ ہو۔بعض شریر طبیعت اور کمینہ خصلت لوگ تو ایسے بھی ہے جو موقع کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور گناہ گاروں کو بلیک میل کرنا شروع کردیتے ہیں یہ چیز شرعاً اور قانوناً ناجائز اور گناہ ہے ،اگر کسی شخص کی بلیک میلنگ اوربیجا مطالبات سے تنگ آکر کسی نے خود کشی کرلی تو بلیک میل کرنے والاقانوناً مجرم ہے اور سخت سزا کا مستحق بھی !اس لیے عام مسلمانوں سے یہ گزارش ہے کہ اپنے کسی بھائی یا بہن کے کسی گناہ کا علم ہوجائے تو اس کی پردہ پوشی کریں اور اس کا چرچا نہ کریں، اس لیے کہ کسی برائی کا چرچا کرنا بھی اس کو پھیلانے اور بڑھا وا دینے کے مترادف ہے۔ایسے موقع پر یہ احساس بھی دل میں رہنا چاہیے کہ انسان سے ہی غلطی اور بھول چوک سزد ہوتی ہے ،اگر خدانخواستہ ہمارے کسی رشتے دار یا عزیز سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوجائے تو کیا ہم اسے بیان کرنا اور پھیلانا پسند کریں گے؟یہ خیال بھی رہے کہ ہم اگر دوسروں کے عیوب اور غلطیوں کو سر عام بیان کررہے ہیں تو کیا ہم عیب سے پاک ہیں ؟ کیا ہم سے کسی گناہ یا غلطی کا صدور نہیں ہوتا ؟دوسروں کے عیبوں کے پیچھے پڑنے والااور ان کو بیان کرنے والاگویا اپنی پارسائی کا دعویٰ کرتا ہے کہ میں عیب سے پاک ہوں اور مجھ سے کبھی کوئ غلطی سرزد نہیں ہوتی ۔ ایسے ہی شخص کو مخاطب کرتے ہوئے شاعر نے کہا ہے ؎
اتنا نہ بڑھا پاکیٔ دامن کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
سچی بات تو یہ ہے کہ ہر انسان اس سے کسی نہ کسی درجے میں گناہ اور غلطیوں کا صدور ہوتا رہتا ہے جن کو اللہ پاک دیکھتا اور جانتا ہے اس کے باوجود وہ اپنے بندوں کے عیبوں کو ظاہر نہیں کرتا، اگر اللہ ہر ایک کے عیب اور گناہ کو ظاہر کرنے لگے تو شاید زمین پر کوئی شخص سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہے ۔
٭٭٭
0 تبصرے