تحریر : مفتی محمد عامر یاسین ملی
8446393682
(1) گزشتہ چھ رمضان کو ہزار کھولی میں منعقدہ چھ روزہ نماز تراویح میں تکمیل قرآن کا بابرکت موقع تھا ،قبولیت دعا کی اس گھڑی کو غنیمت جانتے ہوئے بہت سارے افراد نے پرچیاں بھیج کر اپنے مرحومین کی مغفرت اور بیماروں کی شفایابی کے لیے دعا کی درخواست کی تھی ،تمام پرچیوں کی خواندگی کے بعد راقم نے خود بھی مصلیان کے سامنے اپنی درخواست پیش کی کہ آپ حضرات بھی میرے دو یاسین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا فرمائیں ،پہلے یاسین سے مراد والد گرامی قاری محمد یاسین شمسی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو ۱۳؍مارچ ۲۰۱۳ء کو داغ مفارقت دے گئے ،دیکھتے دیکھتے اس سانحہ کو گیارہ سال کا عرصہ بیت گیا لیکن کبھی گیارہ دن بھی ایسے نہیں گزرے جب والد صاحب کی عدم موجودگی اور سایہ عاطفت سےمحرومی کا احساس نہ ہوا ہو،بطور خاص رمضان المبارک میں ہم اہل خانہ کے علاوہ ان کے متعلقین خصوصاً ان کی اقتدا میں نماز تراویح ادا کرنے والے افراد ان کو شدت سے یاد کرتے ہیں ،والد صاحب کی سب سے بڑی اور نمایاں صفت قرآن کریم سے والہانہ لگاؤ اور انتہائی عمدہ لب ولہجہ میں اس کی تلاوت تھی ،اللہ پاک نے ان کو لحن داؤدی سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا اور حفظ قرآن کی زبردست پختگی سے نوازا تھا ،وہ سال بھر اہتمام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے ،جس کی برکت یہ تھی کہ وہ بغیر کسی تیاری کے بآسانی نماز تراویح میں قرآن سنالیا کرتے تھے ،اس کے باوجودنماز تراویح کی تیاری کے لیے ایک ہی پارہ کو آٹھ سے دس مرتبہ پڑھا کرتے تھے ۔
۲۰۰۲میں جب معہد ملت میں میرا حفظ قرآن مکمل ہوا تو والد صاحب نے مجھے نماز تراویح میں قرآن سنانے کی ترغیب دی اور نظام آباد (تلنگانہ) کے ایک دیہات میں تراویح کی امامت کے لیے میراتقرر کروادیا ، قریب کے دوسرے گاؤں میں وہ بھی نماز تراویح کی امامت فرماتے تھے ، دن میں میری مسجد میں تشریف لاتے اور مجھے قرآن سناتے اور پھر مجھ سے سنتے ،ضروری اور اہم باتوں کی نشاندہی کرتے ،غلطیوں کی اصلاح کرتے اور اچھا سنانے پر حوصلہ افزائی فرماتے ،جس کی برکت یہ ہے کہ میں نے چھ سال مسلسل ایک ہی جگہ نماز تراویح کی امامت کی ،اس کے بعد مالیگاؤں مسجد عمرفاروق(عمرآباد) میں تین سال، مسجد انوار مدینہ میں ایک سال اور مسجد یحییٰ زبیر میں بارہ سال نماز تراویح میں قرآن سنانے کا شرف حاصل ہوا ،ساتھ ہی ساتھ چھ روزہ اور تین روزہ تراویح میں بھی گزشتہ ایک دہائی سے قرآن سنانے کی سعادت میسر آرہی ہے واللہ الموفق وعلیہ القبول۔
جب بھی نماز تراویح میں قرآن مکمل ہوتا ہے ،والد صاحب کی یاد شدت اختیار کرجاتی ہے ،دل چاہتا ہے کہ ان کے گلے لگ جاؤں اور پھر وہ میرے سر پر اپنا دست شفقت رکھ کر دعا دیں اور خوشی کا اظہار کریں ،افسوس کہ اب یہ نعمت عظمی میرے پاس باقی نہیں رہی ،لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے یہ موقع تو دیا ہے کہ میں تکمیل قرآن کے موقع پر ایصال ثواب کر کے ان کے لیے رفع درجات کی دعا کروں ،اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مصلیان اور متعلقین سے بھی اس کی درخواست کروں ،قارئین سے بھی میری یہی درخواست ہے۔
(2) دوسرے یاسین سے مراد میرے مشفق استاذحافظ محمد یاسین ملی رحمۃ ﷲعلیہ ہیں جو معہد ملت کے قدیم اور بافیض استاذ تھے،انہوں نے زندگی کابڑا حصہ قرآن مجید کی خدمت میں گذارا،اور بڑی محنت اور لگن سے سینکڑوں حفاظ کرام تیارکیے۔مادرعلمی معہد ملت سے حافظ صاحب کو بے پناہ لگاؤ تھا، اسی درسگاہ کی علمی فضا میں رہ کر انہوں نے تعلیم حاصل کی، پھر فراغت کے بعد وہ اسی کے ہوکر رہ گئے، اور شعبہ حفظ میں بحیثیت استاذ حافظ صاحب نے اڑتیس برس گزارے، اور دو سو حفاظ کی ایک ٹیم تیار کردی، اس کے علاوہ مسجد انوار مصطفی میں انہوں نےچالیس سال تک امامت و خطابت کے فرائض انجام دئیےاور اہتمام کے ساتھ چالیس سال تک نماز تراویح میں قرآن پاک سناتے رہے۔
حافظ صاحبؒ سچے عاشق قرآن تھے اور دین کے مخلص خادم بھی۔معہد ملت کے شعبۂ حفظ میں خدمت انجام دینے اور سال بھر طلبہ کا قرآن سننے کے باوجود ماہ رجب کا آغاز ہوتے ہی نماز تراویح میں قرآن سنانے کی غرض سے تیاری شروع کردیتے تھے اور اپنے بچوں کو خود بھی قرآن سناتے اور ان کا قرآن بھی سنتے ۔حافظ صاحب کے چار بیٹے ہیں اور الحمدللہ چاروں حافظ قرآن ہیں۔
حافظ صاحب ؒ کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے شاگردوں کی کامیابی سے خوش ہوا کرتے تھےاور فراغت کے بعد بھی شاگردوں کے احوال اور سرگرمیوں سے واقف رہا کرتے تھے،ساتھ ہی ساتھ ان کو قرآن پاک کی تلاوت ،اعادہ اور نماز تراویح اور نوافل میں قرآن پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے۔اسی طرح ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ قرآن کی نسبت سے منعقد ہونے والی ہر مجلس میں ذوق وشوق سے شریک ہوا کرتے تھے،خواہ ان کو باضابطہ دعوت نامہ دے کر مدعو نہ کیا گیا ہو ۔ماہ رمضان میں اپنی ڈیڑھ پارے کی تراویح سے فارغ ہونے کے بعد ہزار کھولی میں چھ روزہ تراویح اور مسجد عمر ابن خطاب میں تین روزہ تراویح میں راقم کا قرآن سننے کے لیے پابندی سے حاضر ہوا کرتے تھے اور خوب حوصلہ افزائی کرتے اور سینے سے لگا کر دعاؤں سے نوازتے تھے۔ قریب تین سال قبل حافظ صاحب اچانک داغ مفارقت دے گئے ، ہر سال نماز تراویح کے موقع پر ان کی بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے ، وہ بجا طور پر سید الحفاظ کہلانے کے حقدار تھے۔قرآن پاک کے ایسے شیدائی اور اپنے شاگردوں کے ایسے خیر خواہ اب کہاں ملتے ہیں ! ابا جان کی وفات پر میں اگر یتیم ہوگیا تھا تو استاذ محترم اور ماموں جان حافظ محمد یاسین ملی صاحب کی رحلت پر گویا دریتیم ہوگیا ۔ اب بس دونوں حضرات کی یادیں دل کی امانت ہیں اور ان کے تذکرے میں تسلی کا بڑا سامان ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اپنی کتاب کے ان دونوں مخلص خدمت گاروں کےدرجات بلند فرمائےاور ان کو اعلی علیین میں جگہ عطافرمائے۔آمین
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہرباری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
*-*-*
1 تبصرے
اللہ تعالی دونوں کی مغفرت فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں