تحریر: مفتی محمد عامر یاسین ملی
8446393682
شریعتِ مطہرہ کے مطابق تقسیم میراث کی برکتیں اور رحمتیں بہت ساری ہیں اور اجر و ثو ا ب بہت زیادہ ہے۔ اس سے متعدد اجتماعی و انفرادی فائدے حاصل ہوتے ہیں جودرج ذیل ہیں:
(1)اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور ایسے بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔
(2)میراث کے شرعی حکم پر عمل کرنے والاجنت کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں اس بات کا اعلان فرمایا ہے اور اسے بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
(3)قیامت کے دن ایسے شخص کو رسول اللہﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی اور اس دن کے عذاب سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
(4)ایسے شخص کا مال حلال ہونے کی وجہ سے اس کی عبادتیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ آخرت کے دن بڑا سرمایہ ہوگا۔
(5) جن عزیز و اقارب بطور خاص جن خواتین کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے، وہ میراث تقسیم کرنے والے کے لیے دل سے دعائیں کرتے ہیں اور محروموں کو جب حق ملتا ہے تووہ ایسے شخص کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
(6)تقسیمِ میراث سے دولت تقسیم ہوتی ہے جو کہ اسلام کی منشا ہے۔
(7) تقسیمِ میراث کے حکم پر عمل کرنے سے دوسروں کو بھی ترغیب ملتی ہے اور پہل کرنے والے کو اجر ملتا ہے، اس طرح یہ عمل اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔
تدفین کے بعد میراث کی تقسیم
قارئین! آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ گھر کے کسی فرد کے انتقال کے موقع پر وارثین کے دل نرم ہوتے ہیں اور شرعی احکام کو ماننے اور قبول کرنے کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے، لھذا اسی موقع پر میت کا ترکہ وارثین کو آپس میں تقسیم کرلینا چاہیے، یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ تقسیم میراث کا شریعت نے کوئی خاص وقت متعین نہیں کیا ہے کہ اس مدت کے اندر اندر میراث تقسیم کرہی لینا چاہیے ، چنانچہ اگر تمام وارثین آپسی اتفاق سے تقسیمِ ترکہ میں کچھ تاخیر کرنا چاہیں تو شرعاً اِس کی گنجائش ہے، اس تاخیر کی وجہ سے میت سے اِس سلسلے میں کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔یہ سمجھنا کہ تقسیم ترکہ میں تاخیر کی صورت میں میت کو عذاب ہوگا، بے اصل اور من گھڑت بات ہے۔البتہ اگر کسی وارث کے ہاتھ میں میت کی جائیداد اور مال ہو اور وہ بلاعذر تقسیمِ ترکہ میں تاخیر کرے تو گناہ گار ہوگا۔لہذامیراث کی تقسیم کا عمل جس قدر ممکن ہو، پورا کرلینا چاہیےاور بغیر کسی شرعی مجبوری اور رکاوٹ کے اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔اگر کوئی وارث میراث کی تقسیم میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو وہ ایک شرعی حکم کی تعمیل میں رکاوٹ پیدا کرنے کا گناہ گار ہوگااور اس تاخیر کے نتیجے میں ظلم وزیادتی اور حقداروں کو ان کے حق سے محروم کرنے کا بھی اسے گناہ ہوگا۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں میراث کی تقسیم کو لے کر جتنے بھی مسائل پیدا ہورہےہیں اوروارثین کے درمیان جو اختلافات اور گھروں میں ناچاکیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں،ان کا ایک بڑا سبب میراث کی تقسیم میں غیر ضروری تاخیر ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ بھی ہے کہ میت کی تدفین کے بعد اگر کوئی وارث شرعی ضابطے کے مطابق میراث کی تقسیم کا مطالبہ کرے تو اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور دیگر وارثین ایسا مطالبہ کرنے والے کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ مرحوم کے دنیا سے رخصت ہونے کا منتظر تھا! حالانکہ یہ ایک جائز مطالبہ ہے ،جس کو پورا کرنے کے نتیجے میں بعد میں پیدا ہونے والے بہت سار ے مسائل اور جھگڑوں کا خاتمہ ہوجاتاہے۔لہذا میت کے تمام وارثین کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ وہ کسی دارالافتاء سے فتوی حاصل کرکے اس کی روشنی میں جلد از جلد میراث تقسیم کرلیں۔خاندان کے سرپرست اور سماج کے سرکردہ افراد کو بھی چاہیے کہ جب بھی کسی ایسے شخص کا انتقال ہو، جس نے اپنے پیچھے میراث کا مال چھوڑا ہو،تو وہ میت کے وارثین کو شرعی ضابطے کے مطابق میراث کی تقسیم پر آمادہ کریں۔ میراث کی مستحق عورتوں کو بھی اپنے حق کا نہ صرف مطالبہ کرنا چاہیے، بلکہ آگے بڑھ کر اچھے انداز میں تقاضا کرکے اپنا حق لینا چاہیے۔ خواتین کو جاہلیت کی رسم اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اپنا حصہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ خاندان کے دوسرے افراد کو بھی خواتین اور دیگر محروم وارثین کا حصہ دلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔(جاری)
0 تبصرے