(گزشتہ سے پیوستہ )
میت کی تجہیز وتکفین کے بعد سب سے پہلے میت کا قرض اس کے چھوڑے ہوئے مال سے ادا کیا جائے گا،اس کے بعد مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال سے اس وصیت کو پورا کیا جائے گا،اور بقیہ دو تہائی مال وارثین میں تقسیم کردیا جائے گا۔اگر قرض کی ادائیگی میں مرحوم کا پورا مال وراثت صرف ہوجائے تو بھی قرض کی ادائیگی ضروری ہے ایسی صورت میں کسی وارث کو مال نہیں ملے گا،اس لیے کہ قرض کا معاملہ بڑا نازک ہے اور اس کی ادائیگی کے متعلق حدیث شریف میں بڑی تاکید آئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :مالدار شخص کا قرضہ ادا کرنے میں تاخیر کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ومسلم)حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ ﷺ پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ ﷺ اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر (آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتےبلکہ) مسلمانوں سے فرماتے کہ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (بخاری ومسلم)حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے (ترمذی)حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کبیرہ گناہ جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اللہ کے نزدیک ان کے بعد عظیم ترین گناہ کہ جس کا مرتکب ہو کر بندہ اللہ سے ملے، یہ ہے کہ کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض کا بوجھ ہو اور اس نے اپنے پیچھے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو جائے۔ (ابوداؤد)
مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ کیاہے؟:
اگرمرحوم کے ذمہ قضا نمازیں اور روزےہوں اور انہوں نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت بھی کی ہو تو ایسی صورت میں ان کے مال میں سے ہی فدیہ اداکیاجائے گا،اور کل مال کے ایک تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی۔ اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ورثاءکے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر وہ اپنے طور پر خوش دلی سے مرحوم کی بقیہ فوت شدہ نماز وںاور روزوں کا فدیہ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا۔
کیامرحوم کا فدیہ ادا کرنا وارثین پر لاز م ہے؟:
اگر مرحوم نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً وارثین پران کی نماز اور روزہ کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر وارثین از خود باہمی رضامندی سے یاکوئی ایک وارث اپنی جانب سے ان کی نما ز، روزوں کا فدیہ ادا کرے تو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے۔
فدیہ کی مقدار:
ایک روزے اور ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہوتاہے، روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیںہوتی ہیں ،اس طرح ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔
فدیہ کس کو دیا جائے؟:فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکوۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ، لہذا واررثین اپنے مرحوم کی نماز اور روزوں کا اندازا لگاکرفدیہ اداکرنا چاہیں تو مذکورہ طریقے پر ادا کرسکتے ہیں۔
اگر فوت شدہ نماز روزہ اور قرض خواہوں کا علم نہ ہو:
اگر مرنے والے کی سالوں کی نمازیں اور روزے باقی ہیں اور کافی قرض بھی ہے، اور اس نے وراثت میں بھی بہت تھوڑی سی رقم چھوڑی ہے۔نیزوارثین کو قرض خواہوںکی تفصیل بھی نہیں معلوم توایسی صورت میںسب سے پہلےمیت کی دستاویزات وغیرہ دیکھ لی جائیں یا اس کے متعلقین سے معلوم کرلیا جائے، ممکن ہے قرض خواہوں کا اس سے علم ہوجائے، اس کے بعداعلانِ عام کردیا جائے کہ مرحوم کے ذمہ جس کا قرض ہو وہ وصول کرلے، لیکن مرحوم نے چونکہ ترکہ بہت کم چھوڑا ہے جس سے تمام قرضوں کی ادائیگی ممکن نہیں؛ اس لیے جس قدر قرض ادا کرنا ممکن ہو وہ کل ترکہ سے ادا کر دیا جائے، اور اگر قرض خواہ زیادہ ہوں تو ہر قرض خواہ کو اس کے قرض کے تناسب سے ترکہ میں سے قرض ادا کر دیا جائے، کسی ایک قرض خواہ کو پورا قرضہ واپس کر دینا اور باقیوں کو کچھ نہ دینا درست نہیں۔البتہ اگر وارثین صاحبِ استطاعت ہوں اور قرضوں کی ادائیگی کر سکتے ہوں تو مرحوم کا قرضہ اتار دینا مرحوم پر پر بڑا احسان ہو گا، لیکن وارثین پر اس قرض کی ادائیگی لازم نہیں۔
پیغام:
قارئین ! موجودہ وقت میں احسان فراموشی اور بے مروتی عام ہے،مال کی ہوس انتہا کی حد تک بڑھ چکی ہے،عام طریقے پر وارثین اپنے مرحوم کی میراث سے لاکھوں روپے خوشی خوشی وصول کرتے ہیں لیکن مرحوم کا چند ہزار روپے کا قرض اور نماز روزے کا فدیہ ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ،اس لیےہر شخص کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنا تمام قرض ادا کردے اور اپنے مالی معاملات خود ہی درست کرے،اپنے وارثین اور اولاد کے بھروسہ نہ رہے ،لوگ اپنے مرحوم کے مال سے اپنی دنیا تو بنالیتے ہیں لیکن اپنے مال سے مرحوم کی آخرت بنانے کی فکر نہیں کرتے ۔الاماشاء اللہ(جاری)
*-*-*
0 تبصرے