از : حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی مدظلہ
(مہتمم جامعہ معہد ملت و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)
ایک بزرگ نے خوبصورت بات ارشاد فرمائی ہے " سارے دین کا خلاصہ ایک جملے میں یہ ہے، حق ادا کرنا " ۔ یقینا یہ بڑی گہری بات ہے کہ دین کی تعلیمات کا نچوڑ یہی ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرے اور اس کے بندوں بندیوں کے حقوق بھی ! اللّٰہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی تو لازمی ہے ہی ، ساتھ ہی حقوق العباد بھی ادا کرنا ضروری ہے ۔ صرف حقوق اللّٰہ کی ادائیگی سے نجات نہیں ہوگی ، اسی لیے قرآن مجید میں جہاں حقوق اللّٰہ کی ادائیگی کی تعلیم دی گئی ہے وہیں حقوق العباد پر بھی زور دیا گیا ہے ۔ خاص طریقے پر مالی معاملات کے سلسلے میں حق کی ادائیگی پر متوجہ کیا گیا ہے اور مالی معاملات کو جزئیات کے ساتھ قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے ۔ وراثت کا تعلق بھی مالی معاملات سے ہے، اسی لیے قرآن مجید میں اس کے احکامات اہمیت اور اہتمام کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ وراثت کے احکامات اللّٰہ تعالیٰ کے حدود ہیں جن کی پاسداری ہر حال میں ضروری ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَاب’‘مُّھِیْنٌ
یہ اللّٰہ کی طے کی ہوئی حدیں ہیں جو اللّٰہ اور اس کے رسول کاحکم مانے گا تو اللّٰہ اور اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی۔اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کاحکم نہیں مانے گااور اس کی طے کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھ جائے گا اللّٰہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اوراس کے لیے رسوا کر دینے والا عذاب ہے۔ سورہ نساء آیت 13 14)
مذکورہ بالا آیات میں جو انداز و اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس سے تقسیم وراثت کے سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کا بھی علم ہورہا ہے اور اس کا بھی کہ تقسیم وراثت کے سلسلے میں کتنی احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اگر اس باب میں کوئی زیادتی یا حق تلفی کی گئی تو یہ آخرت کے اعتبار سے سخت نقصان دہ ہے ۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مال کی محبت کی وجہ سے وراثت کی تقسیم میں یا تو تاخیر کی جاتی ہے یا پھر طاقتور کمزوروں کا حصہ دبا لیتا ہے ، بہت سے ایسے بھائی ہمارے سماج میں ملیں گے جنہوں نے بہنوں کا وراثت کا حصہ نہیں دیا یا من مانے طریقہ پر وراثت کی تقسیم کی جس سے اہل حقوق کے حق متأثر ہوئے ۔ ہمارے معاشرے کا یہ بڑا المیہ ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی اس سلسلے میں حق تلفی اور ظلم و زیادتی کی راہ پر چلتے ہیں جو بظاہر دین دار اور نمازی ہیں۔ ان کی دینی وضع قطع ، متشرع حلیے اور نماز کی پابندی اور عبادت کی طرف رغبت دیکھ کر کوئی گمان نہیں کرسکتا کہ مالی معاملات اور تقسیم وراثت کے سلسلے میں وہ کوتاہ واقع ہوئے ہیں ، مگر یہ سچائی ہے کہ بہت سے سفید پوش افراد کے اجلے لباسوں کے پیچھے منافقت اور بدعملی کی سیاہی چھپی ہوئی ہوتی ہے اور دین داری اور خدا دوستی کے روپ کے پیچھے بے دینی اور شیطان سے یاری کا پہلو ہوتا ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں وراثت کے احکامات اتارے ، وراثت کی منصفانہ تقسیم کی تلقین فرمائی، حق دینے والوں کے لیے جنت کی بشارت دی اور حقوق غصب کرنے والوں یا تقسیم وراثت کے سلسلے میں غلط روش پر چلنے والوں کے لیے دوزخ کی وعید سنائی ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پورے اسلامی معاشرے میں تقسیم وراثت کے سلسلے میں احکامات الٰہی اور تعلیمات نبوی پر سو فیصد عمل کیا جاتا ، لیکن مادیت کا ایسا زور ہے اور مال و اسباب کی ایسی محبت دلوں میں پیوست ہے کہ بہت سے مسلمان اخروی نعمتوں پر دنیا کے کھنکتے سکوں اور سیم و زر کے ذخیروں کو ترجیح دیتے ہیں اور حقوق غصب کرکے اپنے آپ کو رحمت الٰہی اور مغفرت ایزدی سے محروم کرلیتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک عرب ملک کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ثروت مند بھائی کا انتقال ہوا اور اس کی بہن بھائی کے جنازے کے پیچھے چل پڑی، لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ جنازے کے ساتھ چلنے پر مصر رہی، لوگوں نے یہ خیال کیا کہ رنج و صدمے کی شدت سے ذہن بے قابو ہے، چنانچہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، یہاں تک کہ وہ قبرستان پہنچی، جب اس کے بھائی کی تدفین ہوئی اور لوگوں نے قبر پر مٹی ڈالی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس بہن نے بھی دست دعا دراز کیا اور بلند آواز سے یہ دعا مانگی کہ " اے اللّٰہ جس طرح مرتے دم تک میرے اس بھائی نے مجھے وراثت کے مال سے محروم رکھا، تو بھی اس کو اپنی رحمت اور مغفرت سے محروم فرما! " یہ در حقیقت اس اندرونی درد اور کرب کا اظہار ہے جس سے وہ خاتون گزرتی رہی، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو لوگ وراثت کے سلسلے میں من چاہے طریقے اختیار کرتے ہیں یا مال و اسباب کی محبت کی وجہ سے حقوق ضائع کرتے ہیں اور اپنے اعزہ و اقارب پر ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں،وہ اللّٰہ تعالی کی نگاہ کرم و رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ علماء کرام تحریر و تقریر کے ذریعے وراثت کے سلسلے میں لوگوں کو متوجہ کریں، اور قرآن و حدیث میں جو احکامات وراثت آئے ہیں انہیں لوگوں کے سامنے واضح کریں۔ بحمد اللّٰہ اس سلسلے میں توجہ دی جاتی رہی ہے اور تقاریر و خطبات کے ذریعے احکام وراثت کا بیان کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں بہت سی مفید کتابیں، رسالے اور مضامین و مقالات اہل علم نے تحریر فرمائے ہیں۔مفتیان کرام نے بھی اس اہم موضوع پر قابل قدر کام کیا ہے۔ زیر نظر رسالہ بھی اسی جذبے کے پیش نظر لکھا گیا ہے اور اس میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ وراثت کے مسائل اور اس سے جڑی ہوئی چیزیں آسان زبان اور عام فہم انداز میں تحریر کر دی جائیں۔ اس کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ بہت تفصیل و تطویل نہ ہو جو پڑھنے والوں کے لیے بوجھ ثابت ہو۔ ماشاءاللّٰہ یہ اچھی اور مفید کوشش ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس سے پڑھنے والوں کو فائدہ ہوگا!
رسالے کے مرتب مفتی محمد عامر یاسین ملی زید علمہ و رشدہ ہیں جو اچھی صلاحیت کے مالک اور معہد ملت کے نمایاں فاضل ہیں، ہمارے ادارے " ادارہ صوت الاسلام" سے برسوں سے منسلک ہیں اور تحریر و تقریر کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے کئی اہم اور مفید رسالے شائع کئے ہیں جن میں سے ( تحفہ ائمہ ، رہنمائےحفاظ، آپ حج کیسے کریں ؟ آپ رمضان کیسے گزاریں؟کامیاب ازدواجی زندگی کا راز ، وغیرہ) قابل ذکر ہیں ۔اب ان کی نئی قلمی کاوش زیر نظر رسالے کی شکل میں سامنے آرہی ہے ۔ دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں مزید قلمی و علمی خدمات کا موقع دے اور ان کی راہ دین میں کی جانے والی کوششوں کو قبول فرمائے! آمین یا رب العالمین بحرمۃ سید المرسلین و صلی اللّٰہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
0 تبصرے