Ticker

6/recent/ticker-posts

میراث سے متعلق اسلامی ہدایات



تحریر: مفتی محمد عامر یاسین ملی 
8446393682
(گذشتہ سے پیوستہ) 
قارئین! سب سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ میراث کسے کہتے ہیں ؟اس کاجواب یہ ہے کہ مرنےوالاانتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال و جائیداد ،نقد روپیہ، زیورات، کپڑے اور کسی بھی طرح کا چھوٹا بڑا سامان چھوڑتا ہے خواہ سوئی دھاگہ ہی ہو،ازروئے شریعت وہ سب اس کا’’ترکہ‘‘ہے،انتقال کے وقت اس کے بدن پر جو کپڑے ہوں وہ بھی اس میں داخل ہیں،نیز میّت کے جو قرضے کسی کے ذمہ رہ گئے ہوں اور میت کی وفات کے بعد وصول ہوں وہ بھی اس کے ترکہ میں داخل ہیں۔یہاں تک کہ اگر میت کی جیب میں ایک الائچی بھی پڑی ہوتو کسی شخص کو یہ جائز نہیں کہ سب حقداروں کی اجازت کے بغیر اس کو منہ میں ڈال لے،کیونکہ وہ ایک آدمی کا حصہ نہیں ۔
میراث کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورہ نساء میں تفصیل کے ساتھ احکام بیان فرمائے ہیں۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے ، ’’ اسواف‘‘ نامی مقام پر ہمارا گذر ایک انصاری خاتون کے پاس سے ہوا ، وہ اپنی دو لڑکیوں کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ان کے والد غزوۂ اُحد میں آپ کے ساتھ شہید ہوچکے ہیں اور ان کے چچا نے شہید کا کل ترکہ لے لیا ہے، ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا، اور صورتِ حال یہ ہے کہ جب ان کے پاس کچھ مال ہی نہ ہوگا تو کوئی شخص ان سے نکاح کو بھی تیار نہ ہوگا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فیصلہ فرما دیں گے ؛ چنانچہ سورۂ نساء کی آیت نمبر :۱۱؍ نازل ہوئی ، آپ ﷺ نے خاتون کو اور اُن یتیم لڑکیوں کے چچا کو طلب فرمایا اور ان سے کہا :شہید کے ترکہ کا دوتہائی ان دونوں لڑکیوں کو اور آٹھواں حصہ شہید کی بیوہ یعنی ان دونوں بچیوں کی ماں کو دے دو ، اس کے بعد جو بچ جائے ، وہ تمہارا ہے۔ ( ابو داؤد : حدیث نمبر: ۱۹۸۲)
یہ بات بھی جانناضرری ہےکہ جب کسی شخص کا انتقال ہوتا ہےتو فوراً اس کا مال وارثین میں تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ میت کے کل ترکہ میں ترتیب وار چار حقوق واجب ہوتے ہیں ،ان کو شرعی قاعدے کے مطابق ٹھیک ٹھیک ادا کرنا وارثوں کی اہم ذمہ داری ہے،وہ چار حقوق یہ ہیں:
(۱)تجہیز وتکفین
(۲)دَین اور قرض کی ادائیگی،اگر میت کے ذمہ کسی کا رہ گیا ہو۔
(۳)جائز وصیت کو نافذ کرنا اگر میت نے کی ہو۔
(۴)وارثوں پر میراث کی تقسیم
        ترکہ میں سب سے پہلے تجہیز وتکفین اور تدفین کے مصارف ادا کیے جائیں ،پھر اگر کچھ ترکہ بچے تو میت کے ذمہ جو لوگوں کے قرضے ہوں وہ سب ادا کئے جائیں ،اس کے بعد اگر کچھ ترکہ باقی رہے تو اس کے ایک تہائی کی حد تک میت کی جائز وصیت پر عمل کیا جائے ،اور بقیہ دو تہائی مال بطور میراث سب وارثوں میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے،اگر میت کے ذمہ نہ کوئی قرض تھا ،نہ اس نے ترکہ کے متعلق کچھ وصیت کی تھی تو تجہیز وتکفین اور تدفین کے بعد جو ترکہ بچے وہ سب کا سب وارثوں کا ہے ،جو شریعت کے مقررہ کردہ حصوں کے مطابق ان میں تقسیم ہوگا۔ (جاری)
نوٹ: یہ مضمون ہماری نئی تالیف کردہ کتاب " میراث کے مسائل اور ان کا حل" سے نقل کیا گیا ہے ۔"
                               ٭…٭…٭
کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ کریں ۔
8446393682
شہر مالیگاؤں کے بکڈپوز پر بھی یہ کتاب دستیاب ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے