Ticker

6/recent/ticker-posts

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا وصال ایک زرین عہد کا اختتام

                
تحریر:مفتی محمد عامریاسین ملی مالیگاؤں

     ابھی ابھی(۲۱؍رمضان المبارک کی سہ پہرکو) یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ ملک ہندوستان ہی نہیں عالم اسلام کی انتہائی بزرگ اور عظیم المرتبت شخصیت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب بھی اللہ پاک کی جوار رحمت میں پہنچ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون ماہ رمضان المبارک میں ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے ۔گزشتہ ۴؍اپریل مطابق ۱۲؍رمضان المبارک کو آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تاسیسی اور آل انڈیا فقہ اکیڈمی کے نائب صد ر حضرت مولانا قاضی عبد الاحد ازہری ؒ(ناظم اعلی معہد ملت مالیگائوں) کا وصال ہوا ،ابھی ایک عشرہ بھی نہیں گزرا تھا کہ یہ دوسرا سانحہ پیش آگیا،اور بلا شبہ یہ وہ خسارہ ہے جس کا پورا ہونا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔
     حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب کا شمار ہندوستان ہی نہیں عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیات میں ہوتا ہےجن کی بزرگی ،سادگی ،خلوص وللہیت ،شہرت اور نام ونمود سے دوری اور اسلام اور ملت اسلامیہ کی طویل بے لوث خدمات کا اعتراف عجم ہی نہیں عرب میں بھی کیا جاتا ہے ۔آپ نہ صرف ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے متحدہ اور باوقار پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر تھے بلکہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سرپرست اعلیٰ سمجھے جاتے تھے ۔۲۰۰۲ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ کا وصال ہوا تو آپ کو بورڈ کا صدر منتخب کیا گیا ،اس وقت سے لے کر آج تک جس طرح آپ نے حسن تدبیر اور دانش مندی سے بورڈ کی قیادت فرمائی وہ اپنے آپ میں ایک نظیر ہے۔
      ۱۹۲۹ء میں تکیہ کلاںضلع رائے بریلی (یوپی)کے ایک معروف علمی اور دینی خانوادہ میں آپ کی ولادت ہوئی ۔رائے بریلی میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے ندوۃ العلماء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ۱۹۴۸ء میں سند فضیلت حاصل کی ۔عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں بھی آپ نے ایک سال تعلیم حاصل کی ۔۱۹۴۹ء میں آپ ندوۃ العلماء میں بحیثیت معاون مدرس منتخب کیے گئے ۔اس وقت سے لے کر آج تک آپ اپنی مادر علمی سے وابستہ رہے۔۱۹۹۳ء میں آپ ندوہ کے نائب مہتمم منتخب ہوئے اور ۲۰۰۰ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے وصال کے بعد آپ کو ندوہ کا منصب نظامت سپرد کیا گیا ۔تقریباً نصف صدی تک آپ نے مختلف کتابوں کا درس دیا ،اس دوران ہزاروں ہزار شاگردوں نے آپ سے کسب فیض کیا ،ندوہ کے موجودہ مہتمم عالم اسلام کے نامور عالم دین اور ادیب حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی صاحب دامت برکاتہم کاشمار آپ کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔تدریسی خدمات کے علاوہ آپ نے تصنیفی اور تعلیمی خدمات بھی انجام دی ہیں ،آپ کی عربی اور اردو تصنیفات و تالیفات دو درجن سے زائد ہیں جن میں رہبر انسانیت ،معلم الانشاء،جزیرۃ العرب اور دو مہینے امریکہ میں وغیرہ ،مشہور ہیں ۔
     کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مولانا محترم اس دور میں ہمارے اکابر واسلاف کا نمونہ اور مفکراسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے سچے جانشین تھے ،اسی کے ساتھ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سرپرست اعلیٰ اور موجودہ ملی قیادت کے قافلہ سالار تھے ۔اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ آج ملت اسلامیہ ہندیہ ایک بار پھر اسی طرح رنج اور صدمےسے دوچار ہوئی ہے،جس طرح امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ،حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ،حضرت مولانا سید نظام الدین قاسمیؒ اور حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ کے وصال پر رنج اور صدمے سےدوچار ہوئی تھی ۔خدا تعالیٰ ملت اسلامیہ ہندیہ پر رحم فرمائے اور ان بزرگوں کا نعم البدل عطا فرمائے جو مشکلات اور مسائل کے طوفان میں گھری ہوئی ملت اسلامیہ ہندیہ کی کشتی کوحفاظت کے ساتھ ساحل تک پہنچاسکے۔اللھم لا تحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی رحلت پر کسی عرب عالم نے تعزیتی مضمون لکھا تھا تو اپنے مضمون کا آغازلبید کے اس شعر کے ذریعے کیا تھا ،میں اسی شعر پر اپنے اس تعزیتی مضمون کا اختتام کرتا ہوں ۔
ذھب الذین یعاش فی اکنافھم        
وبقیت فی خلفٍ کجلد الاجرب
   ترجمہ: وہ لوگ رخصت ہو گئے جن کے زیرِ سایہ زندگی بسر ہوتی تھی اور میں نالائق لوگوں میں پڑا رہ گیا ہوں جیسا کہ خارشی اونٹ تنہا کھڑا ہوتا ہے۔
     دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مرحوم کی کامل مغفرت فرماکر ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ سمیت تمام ہی پسماندگان اور  متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
*-*-*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے