تحریر : مفتی محمد عامر یاسین ملی
کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہر زخم بھر جاتا ہے اور بڑے سے بڑا حادثہ انسان کے ذہن سے مٹ جاتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ حادثات بھلائے نہیں بھولتے، چاہے کتنا ہی عرصہ گزر جائے ۔ گزشتہ کل 13 مارچ 2023ء کو والد گرامی قاری محمد یاسین شمسی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کو پورے دس برس ہوگئے۔ 12 مارچ 2013 کو گجرات کے شہر سورت میں ایک ناگہانی حادثے میں ان کا وصال ہوا تھا اور 13 مارچ 2013ء بدھ کے روز بڑے قبرستان میں ہزاروں افراد نے نم آنکھوں کے ساتھ ان کو سپرد لحد کیا تھا۔ اللھم اغفر لہ و ارحمہ
ان دنوں راقم عاجز عمرہ کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس میں ہے۔ اہلیہ اور ہمشیرہ محترمہ بھی ساتھ میں ہیں، آج آپا جان نے یاددہانی کرائی ، اسی طرح بڑے ابو رحمانی محمد ایوب صاحب اور رفیق من مفتی محمد ناظم ملی نے میسیج کیا کہ آج 13 مارچ ہے، یہ دراصل اشارہ تھا ابا جان کے وصال کی طرف، اب میں ان حضرات کو کیسے بتاؤں کہ پچھلے دس سال میں کوئی موقع ایسا نہیں گزرا جب اس بیٹے کو اپنے پیارے ابا جان کی یاد نہ آئی ہو اور دل میں یہ احساس نہ ابھرا ہو کہ اب سر پر دست شفقت پھیرنے والا شفیق و کریم باپ اس فانی دنیا میں نہیں رہا ۔ آج بھی جب کسی بیٹے کو اپنے والد کا ہاتھ تھامے ہوئے دیکھتا ہوں تو اس پر بڑا رشک آتا ہے اور پھر باپ کے مبارک وجود سے محرومی کا احساس شدت اختیار کر جاتا ہے ۔ کاش کہ جن کے والدین باحیات ہیں وہ اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں قبل اس کے کہ یہ نعمت خدا واپس لے لے۔
اے ضیاء ماں باپ کے سائے کی ناقدری نہ کر
دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجر کٹ جائے گا
والد گرامی قاری محمد یاسین شمسی کون تھے اور ان کی کیا خوبیاں اور دینی خدمات تھیں ؟ والد صاحب کے متعلقین کے علاوہ جو قارئین ہمارے مضامین پڑھتے رہتے ہیں وہ والد صاحب کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں ، والد صاحب ایک جید حافظ قرآن ، قاری خوش الحان ، تعلیم قرآن کی خدمت کے جذبات سے سرشار، خوش اخلاق، با اصول ، غیرت مند اور اپنے اہل خانہ کے حق میں انتہائی شفیق و مہربان انسان تھے، اللہ پاک نے ان کو حفظ قرآن کی پختگی کے ساتھ خوبصورت آواز اور تلاوت قرآن کے عمدہ لب و لہجہ سے نوازا تھا، مسلسل 35 برسوں تک انہوں نے متعدد مدارس و مکاتب میں تعلیم قرآن ، اسی طرح شہر و بیرون شہر کی مختلف مساجد میں فرض نمازوں اور تراویح کی امامت کی مبارک خدمت انجام دی۔ آج بھی ان کا منفرد انداز تلاوت اور فصیح و بلیغ اردو میں نرالا انداز گفتگو ان کے متعلقین یاد کرتے ہیں ۔
حدیث شریف میں ہے کہ تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے حق میں اچھا ہو ۔ میرے والد صاحب یقینا اس حدیث کے مصداق تھے، پوری زندگی اپنے اہل و عیال کی عمدہ کفالت اور بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے انتھک جدوجہد کرتے ہوئے انہوں نے گزاردی۔ یہ راقم عاجز آج جو کچھ بھی ہے اس کے پیچھے سب سے بڑی فکر ، کوشش اور قربانی والد صاحب کی رہی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ دعاؤں کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے ، مجھے تو آج بھی اپنے اور اہل خانہ کے حق ان کی دعاؤں کی قبولیت کی برکات اوراثرات نظرآتےہیں ۔
روئے زمین کے سب سے مبارک گھر کعبۃ اللہ کے سامنے مطاف میں بیٹھا ہوا تھا، یکایک والد صاحب کی یاد شدت اختیار کرگئی، ان کی زندگی کے مختلف گوشے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگے، اور پھر
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
ہمشیرہ محترمہ نے کہا کہ اس مبارک مقام پر کچھ لکھ لو تو بہتر ہوگا ، سعادت مند بھائی بہنوں کی بات ٹالا نہیں کرتے ، چنانچہ اسی وقت یہ مضمون لکھنا شروع کیا، کچھ حصہ حرم میں لکھا ، پھر ہمارے ایک عزیز اشہر فیضی صاحب اور ہماری ایک خالہ جان سے ملاقات کے لیے جدہ جانا ہوا تو کچھ حصہ ان کے مکان میں لکھا اور اب مکہ سے مدینے راستے میں بس میں بیٹھے بیٹھے اس مضمون کو مکمل کررہا ہوں۔
مکہ مکرمہ سے روانہ ہوتے ہوئے رفیق سفر مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی صاحب نے دعا کرائی تو دوران دعا یہ جملہ بھی کہا کہ
"اے اللہ ! آپ کا کرم کہ آپ نے ہمیں اس عمر میں اپنے مقدس در پر بلایا، ورنہ بہت سارے لوگ ساری زندگی اس در پر حاضری کی چاہت لئے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔"
یہ جملہ سننا تھا کہ آنکھوں سے زوار و قطار آنسوں جاری ہوگئے ، در اصل والد صاحب کی دیرینا تمنا تھی کہ وہ شہر جلال مکہ مکرمہ اور شہر جمال مدینہ منورہ کی حاضری سے بہرہ ور ہوں۔ اس مقصد سے انہوں نے پاسپورٹ بھی بنارکھا تھا، اللہ کی مرضی کہ اسباب مہیا نہ ہوسکے، آج ہوتے تو اپنی حاضری سے پہلے ان کو روانہ کرنے کی کوشش کرتا، افسوس کہ اب وہ ایسی منزل کے لیے روانہ ہوچکے ہیں جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوا کرتی ۔ آہ !!! کیسی حرماں نصیبی ہے اس بیٹے کے لیے جس کی خاطر باپ نے مشقتیں اٹھائیں، قربانیاں دیں اور کسی قابل بنایا، آج وہ بیٹا اپنے ابا جان کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو ابا جان کو دنیا میں موجود نہیں پاتا ! اس درد اور کسک کو بیان کرنے کا نہ زبان کو حوصلہ ہے نہ قلم کو یارا ۔ گیا اسفاہ
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میری تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسا
بہرحال اس بات پر اللہ پاک کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اور تحدیث بالنعمۃ کے طور پر ذکر کررہا ہوں کہ گزشتہ دنوں اس بیٹے نے اپنے ابا جان کی جانب سے عمرہ کی ادائیگی کی اور حرم پاک کے مختلف مقدس مقامات مطاف، مسجد حرام اور اس کے صحن میں بیٹھ کر مکمل قرآن پاک کی تلاوت کی اور والد گرامی سمیت پوری امت مرحومہ کو ایصال ثواب کے دعا کا اہتمام کیا ۔ اللہ پاک قبول کرکے ان کی کامل مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرکے اعلی علیین میں جگہ دے ۔
قارئین سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ بھی میرے والد گرامی کے حق میں کی گئی مذکورہ دعاؤں پر آمین کہہ دیں ۔ کیا عجب کہ کسی کی آمین بارگاہ الٰہی میں قبولیت کا شرف حاصل کرلے اور دنیا سے رخصت ہونے والے بندے کے لیے حصول مغفرت اور رفع درجات کا سبب بن جائے!
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہرباری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
1 تبصرے
اللہ پاک والد مرحوم غریق رحمت کرے، رفع درجات فرمائے۔ آمین
جواب دیںحذف کریں